حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
وتبدل کو ہم رأس البدعات کہتے ہیں اور قواعد کلیہ کے تغیر وتبدل کو ہم بدعت کبری قرار دیتے ہیں ،اعمال جزئیہ کی کمی بیشی کو ہم بدعت صغری کہتے ہیں ، بالجملہ ہم تغیر وتبدل عقائد کو جیسے شیعہ، خوارج ومعتزلہ نے کیا ’’رأس البدعات‘‘ اور قواعد کلیہ کو مثل ایجاد تعزیہ وماتم داری کو بدعت کبریٰ اور کمی بیشی جزئیات کو بدعت صغریٰ کہتے ہیں ‘‘۔ حکمت قاسمیہ کا یہی ’’فکری اعتدال‘‘ ہے جس نے امام نانوتویؒ کو علمائے دیوبند کانظریاتی قائدبنایا ہے۔ اس طرح آپ نے ’’ فکر ولی اللہی‘‘ کے سرچشمۂ اعتدال سے فیض یابی کے بعد ’’اعتدالِ نظر وفکر ‘‘کے تسلسل میں جو کردار اداکیا ہے وہ ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔علامہ انور کشمیریؒ اور اعتدال امام العصر محدث جلیل علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی ’’ سلسلہ اعتدال‘‘ کی ایک اہم کڑی ہیں ۔ آپ کی وسعتِ فکر ونظر اور عمیق مطالعہ بے نظیر ہے۔ آپ نے حنفیت اور شافعیت سے اوپر اٹھ کر حدیث کو سمجھا ہے اور اسی طرز پر حدیث فہمی کی اپنے تلامذہ کو تلقین کی ہے۔ آپ کے تلامذہ نے بھی آپ کے اس وصف اعتدال کو پوری مضبوطی سے تھاما اوراس کی ترویج واشاعت کی۔ چنانچہ علامہ کشمیریؒ کے تلمذ رشید حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ اپنے طلبہ سے فرمایا کرتے تھے کہ ’’ تم خود حنفی بن جائو اس میں کوئی حرج نہیں ، لیکن حدیث نبوی کو حنفی مت بنایا کرو‘‘۔ علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ فکرولی اللّٰہی‘‘ کے طرز پر حدیث فہمی کا ایسا معیار قائم کیا جو مسلکی تعصب اور فقہی جمود سے مکمل طور پر مبرّا ہے۔ آپ عملاً یقینا حنفی تھے، لیکن فقہی بحثوں میں اگر دیگر ائمہ کے نقطۂ نظر کو مضبوط دیکھتے تو اس کا برملا اعتراف کرتے اور اس کو ترجیح دیتے۔ آپ کے نابِغَہ روزگار شاگرد علامہ یوسف بنوریؒ اپنے استاذ امام کشمیریؒ کے حدیث فہمی میں وصف اعتدال کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ایسی نصوص کے بارے میں کہ جن سے فقہائے مذاہب اربعہ اپنے اپنے مذہب کے حق میں استدلال کرتے ہیں ، علامہ کشمیریؒ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی کہ شارع کی مراد اور ان نصوص کا مقصد واضح ہوجائے۔ آپ ان نصوص میں مناط کی تحقیق ، تنقیح اور تخریج کرتے اور اس بات کی قطعاً پرواہ نہ کرتے کہ نص حنفی مذہب کے موافق ہے یا مخالف ۔ آپ کا طرز عمل عام علما کے طرز عمل سے یکسر مختلف تھا جو اپنی تمام ترکوششیں نص کو اپنے مذہب کے موافق بنانے میں صرف کردیتے ہیں اور دور کی تأویل کرنے سے بھی پرہیز نہیں کرتے‘‘۔ گزشتہ چند صدیوں میں ، فقہ وحدیث کے حوالے سے یہ جرأتمندانہ اعتدال یا تو شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنایا