حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
محض جہالت کے شعبے ہیں ، درحالیکہ دین ومذہب علم الٰہی کے چشمۂ صافی سے نکلا ہوا علم حقیقی کا شعبہ ہے نہ کہ جہالت کا، بلکہ علم وادراک کی بھی اصل ہے۔ ادھر یہ افراطی اور تفریطی، غلو اور مبالغہ ظلم و سفاہت کا شعبہ ہے نہ کہ علم وعقل کا۔ اور کون نہیں جانتا کہ مذہب کی بنیاد عیاذاباللہ ظلم وجہل نہیں بلکہ علم وعدل ہے، افراط وتفریط نہیں بلکہ اعتدال وقسط ہے۔ ’’علمائے دیوبند کا دینی رخ اور مسلکی مزاج‘‘ حضرت حکیم الاسلامؒ کی ایک ایسی معرکۃ الآراء تصنیف ہے جس میں انھوں نے بہ ظاہر ’’دیوبندی‘‘ مکتب فکر کے بنیادی اصولوں سے پردہ کشائی کی ہے، لیکن درحقیقت پوری کتاب حکیم الاسلامؒ کے ’’اعتدال فکر ونظر‘‘ پر شاہد عدل ہے۔ ہر ہر باب میں آپ نے علمائے دیوبند کے جامع اور معتدل مسلک کو جس انداز سے بیان کیا ہے وہ آپ ہی کی ذات کا حق تھا کہ جس میں ’’اعتدال‘‘ رچ بس چکا تھا۔تعارف اہل سنت حضرت حکیم الاسلامؒ جامعیت اور اعتدال کی روشنی میں ’’اہل سنت والجماعت‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’اب اگر ضمیر کی صداقت سے نظر ڈالی جائے تو کتاب و معلّم کتاب میں سے کسی ایک سے انقطاع اور دوسرے سے غالبانہ جوڑ، اور یہود ونصاریٰ کی افراط وتفریط سے بچ کر اگر کوئی طبقہ ان دونوں عنصروں سے پوری عقیدت وعظمت اور کمال اعتدال کے ساتھ پیروی کا تعلق قائم کیے ہوے ہے تو وہ صرف اہل سنت والجماعت کا طبقہ ہے، جو نہ کتاب اللہ کو معلمین کتاب اور مربیان نقوش کی تعلیم وتربیت کے بغیر سمجھنے کی بلا میں گرفتار ہے کہ خدائی قانون کو اپنی رایوں اور نظریات کا کھلونا بنالے اور نہ مربیوں کی غلو زدہ عقیدت و محبت کا شکار ہے کہ ان کے ہر شخصی حال وقال اور کردار وگفتار کو قانون کی حیثیت دیتا ہو۔‘‘ آج کل سلف کی پیروی کا دعویٰ کرنے والے کچھ نام نہاد متسلفوں نے تصوف اور احسان وسلوک کو شجرۂ ممنوعہ سمجھ لیا ہے، وہ تزکیۂ نفس کے اس طریقے کو بدعت بلکہ شرک کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اولیاء اللہ کی توہین کے باوجود بھی ان کے دعوائے سلفیت میں کمی نہیں آتی، وہیں دوسری طرف ایسے غالی محبین ومعتقدین بھی ہیں جو قرآن وسنت کو بالائے طاق رکھ کر اکابر صوفیاء کے احوال واقوال سے حجت پکڑتے ہیں اور ان کی اس درجہ تعظیم وتوقیر کرتے ہیں کہ عیاذاباللہ گویا وہی مشکل کشا اور دست گیر ہوں ۔ حکیم الاسلامؒ نے اپنے فکری اعتدال کی راہ نمائی میں اس سلسلے میں بھی ’’علمائے دیوبند‘‘ کے مسلکی مزاج کو بیان فرمایا، آپ تحریر فرماتے