حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلامؒ کی حکیمانہ باتیں ! مولاناعبد العزیز قاسمی مدرسہ نورالاسلام، میرٹھ ملت اسلام کاتھاتو درخشاں آفتاب غیر ممکن ہے کہ اب پیدا ہو تیرا پھر جواب فخر الاماثل، حکیم السلام،شیخ المشائخ حضرت مولانا محمدطیب صاحب ؒ علم وعمل، اخلاق وصداقت کے ایک بہترین اور نادر نمونہ تھے۔ حضرت سلطان الاولیاء خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر قطب العالم حضرت حاجی امدا للہ مہاجر مکی نور اللہ مرقدہ کی ذات ِ اقدس تک جو سلسلہ چلا آرہا تھا جس کو فقیہ زماں ، حکیم الامت مولانا تھانوی صاحب برد اللہ مضجعہ نے جوں کا توں لے کر کتاب وسنت کی روشنی میں منشاء الٰہی کے مطابق اس کو ایک حسین وجمیل صورت عطافرمائی اور اس کا صحیح مجسمہ حضرت اقدس حکیم الاسلام ؒ کی ذات ِ اقدس تھی۔ اس فقدان الرجال کے دور میں صبر وضبط اور علم وعمل کا یہ عالم تھا کہ اپنے تو اپنے اغیار بھی معاملہ پیش آنے کے بعد معترف ومعتقد ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور یہی وجہ تھی کہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی ان کی شرافت نفس کے قائل تھے؎ یہ رتبہ ٔ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دارورسن کہاں استاذ المحترم حضرت حکیم الاسلام ؒ نے شرافت ورافت قسام ازل سے غایت درجہ پائی تھی نظریاتی اختلاف کو ہنسی خوشی برداشت کرلیتے۔ دل میں اپنے حریف کی جانب سے ذرا بھی میل نہ لاتے بلکہ اپنے معاند یا سب وشتم کرنے والوں کی طرف سے بھی کبھی دل تنگ نہ ہوتا اور موقعہ میسر آئے تو ہمدردی اور مروت،رواداری برابر اس کے ساتھ کرتے رہتے۔اس قدر عالی ظرفی اور تحمل کا مادہ ہر ایک انسان کے بس کا کام نہیں ۔’’ان ذلک لمن عزم الامور‘‘۔