حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
بہرحال اس زمانے کے سارے ہی حضرات اراکین حضرت حکیم الاسلامؒ کے مقام ومرتبہ اور آپ کے عظیم الشان اور بے مثال کارناموں کو بچشم ِ خود دیکھنے والے تھے، بالآخر منظور کرلیا۔ کوئی ’’ضابطہ اور قانون‘‘ کی دہائی دے سکتاہے، بے شک مدارس اور اداروں کے لیے ضابطے اور قوانین ہوتے ہیں اور ان کی پابندی اور بجا آوری بھی ضروری ہوتی ہے، مگر خوب سمجھ لینا چاہیے کہ ضابطہ سے بالاتر نہ سہی مگر حالات اور زمانہ کے تقاضے کے پیش ِ نظر کبھی کبھی رابطہ بھی ایک لابدی شے بن جاتی ہے، البتہ وہ موقع اور محل کے مطابق ہو حضرت حکیم الاسلامؒ سے زیادہ موقع ومحل اور وقت کا تقاضا اورضرورت کو کون سمجھنے والا ہوسکتا تھا، ایسے طویل ترین اورعظیم ترین تجربات کس کی حیات کاسرنامہ تھے؟ یہ تو صرف ایک مثال تھی، ایسی جرأت مندانہ اور مدبرانہ تجاویز اور فیصلے نہ جانے کتنے تھے ۔(۱۰)دورِ حاضر کی سیاست سے پاک جیسا کہ آغاز میں عرض کیا گیا، دورِ حاضر کی بدنام سیاست، محض ایک شورش اور ہلچل کا نام ہے دورِ حاضر کی سیاست کے بارے میں ہوئے ’’صاحبان ِ فکر ونظر‘‘ کے سیاسی فکر اور فیصلے سے دنیائے علم وفضل کو کیسے کیسے زخم ملے ہیں ، ان زخموں کی ٹیس سے ایک دنیا کراہ رہی ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ حضرت حکیم الامتؒ کی بزمِ خیر وبرکت کے ایک درخشندہ ستارے تھے، حضرت حکیم الامتؒ ہی کی طرح، آپ نے بھی علم وفضل کی پر سکون اور سیدھی راہ کو سیاست کی پر شور اور پرپیچ وادیوں کے ساتھ خلط ملط نہ ہونے دیا۔ دارالعلوم دیوبند کوئی علاقائی ، کوئی صوبہ جاتی اور کوئی یک ملکی مدرسہ نہیں ہے اور یہ صرف برصغیر کے مسلمانوں کی تعلیم گاہ بھی نہیں ہے بلکہ یہ عالم ِ اسلام کا بین الاقوامی ادارہ ہے۔ اس کی بین الاقوامیت کا تقاضا یہی ہے کہ اس ادارے کا سربراہ اور مہتمم موجودہ دور کی گھٹیا اور گھنائونی سیاست کی تنگنائیوں سے بالاتر ہو، ایسے عالمی ادارے کا مہتمم کوئی ایسا ہی عظیم شخص ہو جو مذکورہ بالا اوصاف میں منفرد مقام رکھتے ہوئے ملت ِ ِ مسلمہ میں ہمہ جہت ہو اور ہمہ گیر مقبولیت کا حامل ہو، بلاشبہ حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنے اسلاف کی طرح خود کو کسی سیاست کا اسیر نہ رکھتے ہوئے دارالعلوم کو اسی شان ِ عظمت اور تاریخی کردار کے ساتھ ساٹھ سال کے طویل اور تاریخی عرصہ تک ہمہ جہتی ترقیات کی روشن شاہراہوں پر قائم رکھا،جس کا واضح اعتراف واقرار آپ کے مخالفین نے بھی کیا۔