حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ہے یاپھر حضرت الامام کشمیریؒ نے ۔ انھی حضرات کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مسلکی تعصب اور فقہی جمود کو ہماری صفوں میں راہ نہیں مل سکی ہے۔ علامہ کشمیریؒ کے ’’اعتدال فکر ونظر ‘‘ کی واضح مثال آپ کا یہ موقف ہے کہ اگر امام ومقتدی کے فقہی مذاہب مختلف ہوں تو نماز مطلقاً جائز ہے۔ ایک مقام پر اس مسئلے کے سلسلے میں فرماتے ہیں : ’’وَالذي تحقّق عندي أنّہٗ صحیح مطلقاً، سواء کان الإمام محتاطاً أم لا۔ وسواء شاہد منہ تلک الأمور أم لا، فإني لا أجد من السلف أحداً، إذا دخل فِي المسجد أنہ تفقہ أحوال إلا مام أو تسائل عنہ، بیدأنہم کانوا یقتدون وینصرفون إلی بیوتہم بلاسؤال ولاجواب‘‘۔ (میرے نزدیک تحقیقی بات یہ ہے کہ ایسی اقتداء مطلقاً صحیح ہے خواہ امام محتاط ہو یا غیر محتاط ۔ پھر خواہ مقتدی نے امام کو (مقتدی کے مذہب کے مطابق نواقض وضو ء کا ارتکاب کرتے ہوئے) دیکھا ہویا نہیں ۔ اس لیے کہ میں نے سلف میں کسی کو اس کے بارے میں نہیں سنا کہ وہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد امام کے احوال جانچتے ہوں یا اس کے بارے میں دوسروں سے دریافت کرتے ہوں ، بلکہ وہ امام کے پیچھے نماز پڑھ کر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے، نہ کوئی سوال ہوتا نہ کوئی جواب۔) علامہ کشمیریؒ کی وسعت نظر اور آپ کے وصف اعتدال کا اس سے بھی انداز لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کسی مسئلے میں امام ابوحنیفہؒ کی دو روایتیں ہوں یا مشائخ حنفیہ کے ایک سے زائد اقوال ہوں تو آپؒ اس قول کو اختیار کرتے جو صریح وصحیح حدیث کے مطابق ہو البتہ اگر اس مسئلے کے تعلق سے کوئی ایسی حدیث نہ ملتی، تو احناف کے اس قول کو ترجیح دیتے جو دیگر فقہی مذاہب سے قریب ہوتا۔ اس تقریب بین المذاہب میں بھی امام شافعیؒ کی رائے مقدم ہوتی پھر امام مالکؒ کی۔ غرض یہ کہ علامہ کشمیریؒ نے حدیث وفقہ کے باب میں جو تجدیدی کارنامے انجام دیے ہیں وہ آپ کے ’’ اعتدال فکر ونظر‘‘ کا پتہ دیتے ہیں ۔ یقینا آپ ہی کے جرأت مندانہ اعتدال کا نتیجہ ہے کہ ’’ فکر ولی اللّٰہی اپنی اسی آب وتاب کے ساتھ باقی رہی اور فقہی جمود اور مسلکی تعصب ہماری صفوں سے دور رہے۔حضرت تھانویؒ اور اعتدال حکیم الامت حضرت تھانویؒ ’’ علمائے دیوبند‘‘ میں ایک ممتاز حیثیت کے حامل ہیں ۔ جہاں وہ علوم ظاہرہ میں امامت کے درجہ پر فائز ہیں ، وہیں علوم باطنہ میں وہ قدوہ ہیں آپ ایک طرف بے شمار علمی وعملی