حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اصول صحابہ کے پابند تھے، زہد وتقویٰ اور اتباع احکام میں ان کے قدم بقدم تھے اسی بابرکت صحبت و تربیت کا اثر تھا کہ حضرت حکیم الاسلامؒ کی مقدس ہستی تواضع و انکسار کی پیکر تھی اور اخلاق حسنہ علوم الہٰیہ کی خزینہ تھی، مصائب پر صبر و سماحت او ر انعامات پر شکر و امتنان کا جذبہ آپ کی فطرت میں داخل تھا اور آپ کے اندر فکر و عقیدہ اور اسلامیت کی روح پورے طور پر حلول کر گئی تھی اور ایمان و عمل میں کیفیت احسان درجہ مقام تک پہونچ گئی جو سلوک و معرفت کا آخری مقام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اسلاف کی آخری نشانی تھے اور اسلاف کے علوم و معارف کے امین تھے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کی جبین سعادت عہد طالب علمی ہی سے چمک دمک رہی تھی اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شیخ الادب و الفقہ حضرت مولانا اعزاز علی صاحب نور اللہ مرقدہٗ کا ایک قلمی تبرک بطور شہادت کے شریک مضمون کر دیا جائے، جس میں خاندان قاسمی کا مختصر تذکرہ بھی ہے اور حکیم الاسلامؒ کے متعلق شہادت بھی مل جائے گی کہ وہ صغر سنی ہی میں علم و فضل کی سندیں حاصل کر چکے تھے۔ جس کا منظریہ ہے کہ بقیۃ السلف حضرت مولانا محمد احمد ؒ کی اولاد باحیات نہ ہونے سے اکابر دارالعلوم کو بڑی فکر دامن گیرہوگئی تھی کہ نسل قاسمی منقطع نہ ہو جائے لیکن الہامی طور پر حضرت شیخ الہند نے ایک مستجاب الدعوات بزرگ سے دعا کرانے کے لئے نمائندہ ارسال فرمایا تھااسی طرح حکیم الاسلامؒ کی کوئی نرینہ اولاد ابھی نہیں ہوئی تھی آپ کی صرف دو لڑکیاں تھیں ، اکابر دارالعلوم کی دیرینہ خواہش تھی کہ حضرت حکیم الاسلامؒ کو بھی فرزند پیدا ہو، چنانچہ حضرت الاستاذ مولانا محمد سالم صاحب مدظلہٗ العالی کی پیدائش ہوئی تو اکابر دارالعلوم کے حلقہ میں زبردست خوشی محسوس کی گئی اور ہدیہ تبریک پیش کرنے کے لئے ایک وفد حضرت مولانا محمد احمدؒ کی خدمت میں حاضر ہوا جسے القاسم میں حضرت مولانا اعزاز علی صاحبؒ نے مژدہ جانفرا کے عنوان سے تحریر فرمایا جو اب ایک یادگار ہوگئی جو مندرجہ ذیل پیش ہے:مژدۂ جانفزا! ’’ ہندوستان میں اہل سنت و الجماعت کا بڑا طبقہ جس کو صحیح معنیٰ میں شریعت مصطفویہ علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ و تحیہ کا حامی اور ہادی کہا جا سکتا ہے، دیوبندی جماعت ہے اس جماعت کے قائد رئیس الاتقیاء حجۃ الاسلام حضرت مولانا الحاج المولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نور اللہ مرقدہٗ بانی ٔ دارالعلوم دیوبند تھے۔ اس فقیرانہ زندگی بسر کرنے والے نے اگر ایک طرف جنید و شبلی (ادخلہما فی رحمۃ الواسعہ) کے تصوف کی طرف رہنمائی کی تو