حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اس پیرایہ میں ایک واضح حقیقت یہ آشکارا ہوئی ہے کہ دعوت دین اور اعلاء کلمۃ اللہ ہی کے ذریعہ امت مسلمہ عزت و شوکت سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔ دوسری ایک حقیقت بڑے لطیف اور مضمر انداز میں بیان کی گئی ہے کہ دعوت دین اور غلبۂ دین کی ذمے داری ادا کرنے کے لئے کسی غلط راہ اور خارجی شرائط کی قطعاً ضرورت نہیں ہے بلکہ دینی و ایمانی ملکات اور علم و معرفت کی حدود ہی داعی کے لئے اصل مشعل راہ ہیں ۔ اس کے لئے شیروں کا دل اورچیتے کے جگر کی ضرورت ہے۔ عیش نہیں اور عافیت کو شی ترک کردینے اور دعوت کا انبیائی انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ دعوت دین کی راہ میں بوڑھے ہو کر مرنے کے بجائے جوانی ہی میں شہید ہوجانے کی تمنا کی ضرورت ہے تاکہ خون شہادت خود ایک دعوت بن جائے۔ افسوس ہم اس غلط گمانی میں خو ش گمان ہیں کہ باطل کی راہ سے بھی حق غالب ہوگا۔ اخلاقیات کے نعرے، جمہوریت کی دل رُبا فریبی راہیں ، حقوقِ انسانی کی چیخیں یہ سب شیطان کے وہ سنہرے جال ہیں جس میں وہ داعیانِ حق کو پھانسی دے کر انہیں ان کے فرضِ منصبی سے دور کرنا چاہتا ہے۔‘‘بدعات و باطل نظریات کی تبلیغ جائز نہیں حکیم الاسلامؒ نے اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ کو اچھی طرح واضح کرتے ہوئے صاف طور پر وضاحت کردی ہے کہ تبلیغ اور دعوت صرف ’’سبیل رب‘‘ ہی کی ہونی چاہئے۔ تبلیغ و دعوت اللہ کا عطا کردہ فریضہ ہے اور اللہ نے خود حکم دیا ہے کہ صرف میرے راستے کی طرف لوگوں کو بلائو۔ اب اس حکم قطعی کے بعد کسی اور طرح کی دعوت کسی اور چیز کی تبلیغ بالکل جائز نہیں ۔ بدعات و خرافات جو دین کے نام پر گڑھ لی گئی ہیں دین کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا بدعات کی دعوت و تبلیغ بھی ناجائز ہوگی۔ اسی طرح نام نہاد حکمت کے تحت لوگ باطل نظریات کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں ۔ مثلاً کمیونزم، سیکولرزم، ڈیموکریسی وغیرہ کی تبلیغ قرآن کی رو سے نہ یہ کہ صرف ناجائز ہے بلکہ لوگوں کو ظلم و عدوان کی تبلیغ کرنے کے مترادف ہے۔ حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ رقم طراز ہیں : ’’نیز جب کہ عبارت آیت میں منطوقاً امر کیا گیا ہے کہ تبلیغ خدا کے راستہ کی گرد اور خدا کا راستہ وہی شریعت یا شریعاتی پروگرام ہے جو اخلاق ربانی اور علم الٰہی پر مشتمل ہے، اس سے واضح ہوا کہ دین کے نام پر اختراعات و محدثات اور بدعات کی تبلیغ جائز نہیں کہ وہ خدا کے راستہ کا پروگرام ہی نہیں وہ سبیل رب ہونے کے بجائے سبیل نفس یا سبیل خلق ہے جو عموماً مذہبی لوگوں کے غلو تعمقِ نظر اور تکلف سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘(۱۲)