حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
’’اگرحکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند کی جامع الصفات ذات گرامی کو دیکھنے والا قسم کھا کر یہ کہے کہ میں نے حقائق اسلام کی حکمت آفرینیوں کے ساتھ حضرت اقدس شاہ ولی اللہ دہلویؒ کو، کتاب اللہ کے ظاہر و باطن کئے انسانیت نواز علوم کے ساتھ حضرت اقدس مولانا شاہ عبدالعزیز صاحبؒ کو ، حقائق و احکام اسلام پر ناقابل شکست استدلال کے ساتھ حجۃ اللہ فی الارض شیخ الاسلام حضرت الامام مولانا محمد قاسم صاحبؒ نانوتویؒ بانی دارالعلوم دیوبند کو، تفقہ اسلام کی مدلل راہ نمائی کے ساتھ فقیہ الاسلام حضرت اقدس مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کو، علم و عرفان کی بہم آمیز جرأت ایمانی کے ساتھ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن صاحبؒ دیوبندی کو، عالم بے عدیل حضرت علامہ انور شاہ کشمریؒ کو ان کی منفرد قوت حفظ و اتقان کے ساتھ، علم حدیث پر مثالی وسعت نظر کے ساتھ محدث جلیل حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ کو، بے مثال طلاقت و فصاحت کے ساتھ شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کو، فراست ایمانی پر تدبر کامل کے ساتھ حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب عثمانیؒ سابق نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند کو اور علم و عرفان زہد و اتقاء اور فضل و کمال کے پیکر جمال کے ساتھ حکیم الامت حضرت اقدس مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کو دیکھا ہے تو میرا دل اس پر یقین رکھتا ہے کہ انشاء اللہ وہ عند اللہ حانث نہیں ہوگا‘‘۔ (۱)عظمت تجزیہ نگاروں اور ماہرین نفسیات کی رائے میں انسانی عظمت کے نمایاں اور بنیادی طور پر تین عناصر ہوتے ہیں ، پہلا عنصر فطری خصوصیات سے متعلق، دوسرا عنصر خاندانی اور نسبی اقدار و اوصاف سے مربوط اور تیسرا عنصر انسان کی اپنی کاوش و محنت سے جڑا ہوا ہے، گویاتیسرا عنصر اکتسابی اور پہلے دو عناصر وہبی ہیں ، ایک دانشور کے بقول ’’حضرت حکیم الاسلامؒ اتنے خوش بخت تھے کہ انہیں عظمت کے یہ تینوں عناصر قادر مطلق نے پوری فیاضی سے عطا کردئیے تھے۔‘‘ (۲) حضرت حکیم الاسلامؒ اس خانوادۂ قاسمی کے گوہر شب چراغ تھے جس نے برصغیر کی تاریخ میں محرالعقول انقلاب برپا کردیا تھا، وہ اس چمنستان قاسمی کے گل سرسبد تھے جس کا فیض مشرق تا بہ مغرب پھیلا اور جس کا سیل رواں تب سے اب تک اس طرح فیض رسانی کرتا آرہا ہے، وہ قال اللہ و قال الرسول کی ان صدائوں کے امین تھے جو انہیں اپنے خاندان اور اکابر سے ورثے میں ملی تھیں ، پھر ان کی شبانہ روز جدوجہد،