حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
بس پھر کیا تھا یکے بعد دیگرے سارے ہی حضرات نے اسی کو دہرایا اور تائید کردی، حضرت مہتمم صاحبؒ اپنے خاص انداز میں بیٹھے ہوئے خاموشی کے ساتھ سنتے رہے۔ آخر میں حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانویؒ (م۱۹۹۵ء)، آپ اسی سال درجہ ٔ علیا پر فائز ہوئے تھے اور شاید مجلس میں یہ آپ کی پہلی شرکت تھی) سے استفسار فرمایا، مولانا موصوف نے اوّلاً نہایت تیکھے تیور کے ساتھ عرض کیا۔ ’’جی ہاں ! حضرت بالکل بلکہ میری رائے تو یہ بھی ہے کہ اس کار کو ایک موٹے سے رسے سے باندھ کر دارالتفسیر پر لٹکادیا جائے اور اس پر موٹے حروف میں لکھ دیا جائے ’’یادگارِ اکابر‘‘ پھر پہلو بدل کر عرض کیا ’’حضرت! اکابر کی یادگار تو یہ دارالعلوم ہے اس کی تعلیمی وتربیتی پہلو کی جانب زیادہ سے زیادہ توجہ درکار ہے، میری مؤدبانہ گذارش ہے کہ اگر کل اسے یہاں سے ہٹانا ہو تو آج ہی اسے کباڑی کے پاس پہنچادیاجائے شاید کچھ پیسے مل جائیں ‘‘۔ یہ سن کر مجلس پر سناٹا طاری ہوگیا، مگر حضرت مہتمم صاحب ؒ کے چہرے پر ایک مسرت آمیز کیفیت نظر آئی اور فرمایا: ’’مولانا وحید الزماں صاحب جو فرمارہے ہیں اسے نوٹ کرلیا جائے‘‘ اور اسی کے مطابق فیصلہ صادر فرمادیا، حضرت مہتمم صاحب ؒ کا یہ فیصلہ بلاشبہ ساری مجلس کے علی الرغم تنہا فرد واحد کی رائے پر ہوا، مگر چوں کہ صائب تھا اس لیے بغیر کسی توقف کے نافذ فرمادیا۔ ایک مثال انھیں صاحب سے متعلق ۱۴۰۰ھ میں دارالعلوم دیوبند کے عالمی اجلاس صدسالہ کے موقع پر مدرسہ کی تعمیراتی اصلاح کے لیے تمام اراکین کے مشوروں کے علی الرغم مولانا کیرانوی مرحوم کو، پورے اختیارات کے ساتھ تعمیرات کا نگراں مقرر کردینا اور قدم قدم پر رکاوٹوں کے دوران مولانا کی مکمل حمایت وتائید جسے دنیا نے دیکھایہ سب اسی تدبر اور مدبرانہ فیصلوں کے نتائج تھے۔(۸)مروّت ورافت کا مجسمہ حضرت حکیم الاسلامؒ شرافت اور مروّت کا مجسمہ تھے،اس سلسلے میں آپ کی حیات کے متعدد واقعات میں سے صرف ایک واقعہ پیش کیا جاتاہے۔ حضرت مہتمم صاحبؒ کے دفتر ِ اہتمام میں تشریف لانے کا ایک مخصوص راستہ تھا، مسجد دارالعلوم سے ہوکر ذیلی راستے سے دفتر ِ اہتمام میں تشریف لاتے تھے، ایک روز مسجد کا دربان اسٹول پر بیٹھا ،پائوں اس طرح پھیلائے ہوئے کہ راستہ بالکل بند۔ حضرت مہتمم صاحب ؒ اپنے وقت پرمکان سے تشریف لائے اور