حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کہ مشاہیر مبصرین نے ان آیات قرآنی کی جو تفسیریں کی ہیں اور اسلامی تاریخ میں جو تفصیلات مذکور ہیں ان کو پڑھنے کے بعد کسی انصاف پسند اور حقانیت دوست کے لئے اعتراض کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی، یہ علماء اسلام اور مبصرین کرام آیاتِ قرآنی کے مفہوم و مقصد کو ان مستشرقین سے کہیں زیادہ اور بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور مستند اسلامی تاریخوں میں واقعہ کی ساری تفصیل موجود ہے ان کی موجودگی میں اعتراض بے غیرتی اور بے حیائی کے سوا اور کچھ نہیں ، اس پاکیزہ واقعہ کو بدمنظر بنانے میں مستشرقین کی بدنیتی کو دخل ہے اس کے باوجود بھی دورِ جدید کے محقق علماء اسلام نے یورپ کو کافی و شافی جوابات دئیے ہیں جس کے بعد اس مسئلہ پر مزید گفتگو عیسائیوں کی بے غیرتی اور بے حیائی ہے اور کچھ نہیں ۔ حضرت حکیم الاسلامؒنے بھی روڑکی کے اس پادری کو تفاسیر اور تاریخِ اسلام کے مستند حوالوں سے جواب دیا ہے وہی اصل حقیقت ہے۔ تفسیر و تاریخ کی تفصیلات کو حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنے مخصوس انداز بیان اور حکیمانہ نکتہ رسی اور زیادہ واضح، موثر، باوزن اور باوقار بنا دیا ہے۔حدیث رسول کا قرآنی معیار آزادی سے پہلے کے پنجاب سے انکارِ حدیث کا فتنہ اٹھا تھا، اس گروہ کا کہنا تھا کہ احادیث کا یہ انبار غیر یقینی رطب و یابس اور متضاد باتوں پر مشتمل ہے، ان احادیث کی روشنی میں اسلام کی جو تصویر بنتی ہے وہ اسلام سے قطعاً مختلف ہوتی ہے جو قرآنی آیات کے رنگ و روغن سے تیار ہوتی ہے اس لئے اگر اسلام کو اپنی اصل ہیئت پر باقی رکھنا ہے تو صرف قرآن کو معیارِ عمل بنانا ہوگا، احادیث کے اس سارے ذخیرے کو آگ لگانی پڑے گی۔ انہوں نے عوام کے ذہن کو خراب کرنے کے لئے احادیث سے تضادات کو جمع کرکے احادیث پر عمل کرنا ناممکن ثابت کرنے کے لئے کتابیں لکھی تھیں ’’دو اسلام‘‘ ان کی مشہور کتاب ہے۔ جب یہ فتنہ شباب پر تھا اور بازار میں ان کی کتابیں آئیں تو اسی دور میں ان کی رد میں بہت سی کتابیں اور مضامین لکھے گئے، تدوین احادیث کی تاریخ پر محققانہ کلام کیا گیا احادیث کی صحت اور ان کے کلامِ رسول ہونے کو دلائل قطعیہ سے ثابت کیا گیا اور بتایا گیا کہ احادیث کے ذخیرے میں صحیح اور موضوع دونوں طرح کی روایتیں ضرور ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ غلط اور موضوع روایتوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ صحیح حدیثوں کو بھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائے، احادیث رسولؐ کے کلام رسولؐ ہونے کی سند اور دلیل دنیا کے تمام مروجہ معیار تحقیق سے کہیں زیادہ مستند اور محقق ہے اور یہ معیار اتنا اونچا، بلند اور یقینی ہے کہ اس سے