حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حضرت حکیم الاسلامؒ مولانا قاضی محمداطہر مبارکپوریؒ حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ علم وفضل، ارشاد وتبلیغ، اخلاق وعادات، درس وتدریس حلم وصبر، نظم وضبط، تصنیف وتالیف، حکمت وموعظت، تقویٰ وطہارت ، اور دیگر علمی ودینی وذاتی اوصاف وکمالات میں اپنے دور کے فرد واحد تھے۔ عوام وخواص میں مقبولیت ومحبوبیت اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے جو مستحقین ہی کو ملتا ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ اپنے اوصاف جمیلہ کی وجہ سے اس فضلِ خداوندی کے بہترین مستحق تھے پورے عالم اسلام میں ان کو جو مقبولیت ومحبوبیت حاصل تھی اس میں ان کے معاصرین میں کوئی شریک وسہیم نہیں ہے حد یہ ہے کہ ان کے مخالفین بھی ان کے ادب واحترام میں بخل نہیں کرتے تھے۔ وہ علمائے دیوبند کے اصلاحی وعلمی ودینی تحریک کے سلسلۃ الذہب کی آخری کڑی تھے بلکہ اس حلقہ کے آخری ترجمان تھے ان پر اس جماعت کا ایک دورختم ہوگیا اور اس کی جملہ خصوصیات اب کسی ایک ذات میں باقی نہیں رہیں ۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کی عام خدمات اور ان کے ثمرات سے صرف ِ نظر کرکے اگر صرف دارالعلوم دیوبند کی کم وبیش ۵۰؍ سالہ خدمات ہی سامنے رکھی جائیں تو دینی وعلمی خدمت کا ایک طویل سلسلہ نظر آئے گا جس کے نتیجہ میں دارالعلوم واقعی ازہر ہند بن گیا اور مسلمانانِ عالم کی قدیم ومشہور درسگاہوں جامع زیتون، جامع قروین ، جامعہ ازہر، وغیرہ میں اس کا بھی شمار ہونے لگا۔ انھوں نے ’’مدرسہ عربیہ دیوبند‘‘ کو زندگی کا مقصد قرار دے کر واقعی معنی میں دارالعلوم بنایا۔ ان کا یہ کارنامہ علمی دنیا میں عظیم کارنامہ ہے جو ان کی عظمت کے لیے کافی ہے۔ کہا جاتاہے کہ آدمی کا اصل روپ سفر میں کھلتا ہے۔ ایک مرتبہ مجھے حضرت حکیم الاسلامؒ کی معیت