حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کے سامنے مؤثر ترین اسالیب پر مشتمل ابلاغ دین کی انشاء اللہ ایک مکمل راہ ثابت ہوگی۔مباحث تمہید کے علاوہ کتاب میں نظام دعوت کے چار ارکان دعوت، داعی، مدعو اور مدعو الیہ پر مبسوط گفتگو ہے۔مصنف علیہ الرحمہ نے آیت کریمہ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنْکو کتاب کی بنیاد بنایا ہے اور اس آیت کریمہ سے اپنی دقت استدلال، ژرف نگاہی اور علوم شریعت پر دسترس کی بدولت دعوت و تبلیغ کا ایک مکمل پروگرام اور بنیادی دستور العمل مرتب فرمادیا ہے جو ہر دور میں داعیان اسلام کے لئے راہ نمائی کرتا رہے گا۔ حکیم الاسلامؒ کی علمی بصیرت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس آیت کریمہ کی روشنی میں ۷۲اصول و ضوابط دعوت کا استنباط کیا ہے۔تصنیف کا محرک مصنف علیہ الرحمہ نے اپنا مقصد تصنیف ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ :’’اس تصنیف یا دعوتی فکر کے خاکہ کا مقصد محض علمی حد تک ہی نظام دعوت پیش کردینا نہیں جو کاغذ اور قلم یا زبان ذہنی سطح سے آگے نہ بڑھ سکے بلکہ حقیقی جذبہ یہ ہے کہ ان اصول پر داعیوں کی ایک جماعت تیار ہو جو قرن اول کے اندر سے غیروں کو اسلام کی دعوت دی اور علمی بصیرت کے ساتھ اقوام عالم کو قرآنی مقاصد سے روشناس کرائے جسے افسوس ہے کہ امت نے تقریباً اس طرح بہلا دیا ہے کہ گویا وہ اسلامی زندگی کا کوئی موضوع ہی نہیں ہے اور اس طرح آج اسلامی امت اپنے فکرو عمل میں بجائے اقدام و ہجوم کے محض دفاعی قوم بن کر رہ گئی ہے۔ دراں حالیکہ اس امت کا تمام تر آغاز و انجام اقدامی دعوت اور ہجوم کے ساتھ آگے بڑھ کر دنیا کو اسلام سے روشناس کرانا تھا تاکہ اسلامی برادری ہر دور اور ہر قرن میں وسیع سے وسیع تر ہوتی رہے اور امر بالمعروف کا نظام عالمگیر ہوجائے۔ (۱)تبلیغ اسلام کا مفہوم تبلیغ اسلام کا مفہوم مصنف علیہ الرحمہ نے بہت واضح الفاظ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اقوام عالم تک اسلام کا پیغام پہونچانا اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینا تبلیغ اسلام ہے۔ امت کی اندرونی اصلاح کی