حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
کیا ہے، میرے سامنے دارالکتاب دیوبند کا طبع کردہ نسخہ ہے، ان دس جلدوں میں مجموعی طور پر کل ۱۰۸؍خطبات شامل ہیں ، جن میں سے بعض توخود ان کی زندگی میں تصنیف کی شکل میں شائع ہوچکے ہیں اور اب ان کی حیثیت باضابطہ اپنے موضوع پر لکھی گئی کتابوں کی ہے۔ان میں سے ایک اہم تقریر وہ ہے جو آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ’’انجمن اسلامی تاریخ وتمدن‘‘ کی دعوت پر ’’اسلام اور سائنس‘‘ کے موضوع پر کی تھی۔ زیرنظرخطبات کے مجموعے میں یہ خطبہ یا تقریر چھٹی جلد میں تقریباً سو صفحات پر مشتمل ہے۔اس تقریر کو اس وقت بھی کافی شہرت وپذیرائی حاصل ہوئی تھی اور آج بھی علمی حقائق ودقائق رموزونکات او ربصائر وعبر کے اقتباسات وواقعات سے اس کی سطر سطر پرُ اور پڑھنے کے لائق ہے اپنے منصب وشہرت کے اعتبارسے تقریر وخطابت حضرت حکیم الاسلام ؒکی ضرورت تو تھی ہی بلکہ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوکہ وہ لوگوں کی توقعات اور اصرار کے باعث ایک مجبوری بھی تھی۔ ملک وبیرون ملک اسفار کا سلسلہ زندگی کے اخیر کے سالوں تک جاری رہا اور شاید ہی کوئی سفر ایسا ہوتا ہو جس میں آپ کی تقریر بلکہ تقریریں نہ کرنی پڑتی ہوں ۔مولانا احمدسعیددہلویؒ نے آپ کے بارے میں کہا تھا کہ اب تک مہتممین دارالعلوم دیوبند ثوابت تھے اورمولانا محمدطیب صاحب سیارہ ہیں ۔ اس کے علاوہ ۲۰؍۲۲؍سالوں تک جامع مسجد دیوبند میں جمعہ کے دن تقریر آپ کامعمول تھا۔ مسلسل لکھتے اور بولتے رہنے کی وجہ سے کہنا چاہیے کہ آپ کو معلومات ویادداشت آپ کی زبان پررہتی تھیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تقریر کے دوران نہ آپ کو لکنت لگتی اور نہ آپ آدھی ادھوری یا ناقص بات یا حوالہ کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے۔ کئی کئی گھنٹے کی تقریر میں تکرار کا نام ونشان نہیں ہوتا۔ حقائق ومعارف اور اسرار شریعت کے بند اس طرح کھولتے چلے جاتے جیسے سب کچھ حفظ کرکے آئے ہوں ، یہ سب آپ کی قادر الکلامی ، قوت گویائی او رجو دت طبع کا فیض تھا۔ بات بات میں نکتہ پیدا کرنا آپ کا خاص امتیاز تھا۔ ان کے خطبات کی بعض اور بھی خوبیاں ہیں جیسے وہ اختلافی مسائل کو کبھی نہیں چھیڑتے تھے۔ ایسے کسی مسئلے پر انھوں نے شاید ہی کبھی کوئی تقریر کی ہو۔ گویا وہ ’’توبرائے وصل کردن آمدی نے برائے فصل کردن‘‘ کے داعیانہ نکتے پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔ بے سروپا قصوں کے بیان سے پرہیز کرتے اور ہمیشہ مستند روایات کے سہارے اپنی بات کو ثابت یا مدلل کرتے ۔ ذیل میں ان کی بعض اہم خوبیوں پر بطورِ نمونہ الگ الگ عنوانات کے ساتھ روشنی ڈالی جارہی ہے۔جداگانہ طرز نثر کے تعلق سے مرزاغالب کا ایک اہم ادبی کارنامہ خود ان کے بقول مراسلے کو مکالمہ بنادینا تھا۔خطوط میں انھوں نے بالالتزام جو اسلوب اختیار کیا وہ روز مرہ کی باہمی گفتگو سے مشابہ تھا۔ اس ندرت