حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ایک مثال میں بیان کردہ روایت کو فوراًقبول کرلیاگیا اور فیصلے کی بنیاد بنادیاگیا ، وہیں دوسری مثال میں روایت کو ناقابل عمل سمجھاگیا۔ یہ دونوں مثالیں صحابہ کرامؓ کے فکری ونظری اعتدال کی واضح دلیلیں ہیں کہ انہوں نے افراط وتفریط کو چھوڑ کر مراد نبوی کو پانے کے لیے کبھی اپنے فیصلوں کی بنیاد بیان کردہ روایت پر رکھی تو کبھی اپنے اجتہاد پر ۔ائمہ فقہ اوراعتدال اسلامی تاریخ میں ائمہ فقہ خصوصاً ائمہ اربعہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان کی فقہی خدمات نے ہماری تاریخ کو ایک نیا رخ اور نئی جہت عطاکی ہے۔ ان کے اپنائے ہوئے طریقوں ، بیان کردہ اصولوں اور ان صولوں سے اخذ کردہ فروعات نے امت مسلمہ کی فکر ی قوت کو جلا بخشی ہے اور اس کے بہتے ہوئے سوتوں میں مزید جوش پیدا کیا ہے۔ اسلام کی فکری تاریخ ان ائمہ کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔ لیکن ان عظیم ائمہ کی خدمات کو یہ اعلی مقام محض اس لیے ملا کیوں کہ ائمہ فقہ کا ہر ایک اجتہاد ’’ اعتدال اور وسطیّت‘‘ کا حسین پر تو تھا۔ ان کی فکری عمارت میں ایک اینٹ بھی جان بوجھ کربے موقع وضع نہیں کی گئی تھی، بلکہ ان کی تعمیر کردہ پوری عمارت ان ائمہ عظام کے مزاج میں ’’اعتدال‘‘ کاپتہ دیتی ہے۔ حنفی مذہب کی جامعیت اور اعتدال کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے اپنے مذہب کی بنیاد شورائی نظام پر رکھی۔ آپ کی فقہی کونسل میں ہر علم وفن کے ماہرین جمع تھے۔ ایسے فقہا بھی تھے جن کا طبعی رجحان علم حدیث کی طرف تھا۔ ایسے علماء بھی تھے جو علم لغت کی طرف طبعی میلان رکھتے تھے۔ اس طرح فقہ حنفی نے اجتماعی طور پر نظر وفکر کے اعتدال کااعلی ترین نمونہ پیش کیا۔ انفرادی طور پر بھی علماء احناف نے نظریۂ ’’اعتدال‘‘کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محد ث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ: امام محمد بن حسن نے پہلے تو امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی پھر مدینہ جاکر امام مالکؒ کی موطاّ سے مقابلہ کرکے دیکھا۔ اگر حنفی نقطۂ نظر اس کے مطابق نظر آیا تو خیر، ورنہ اختلاف کی صورت میں صحابہ اور تابعین کے مختلف مذاہب واقوال جستجو کی، اگر کسی کے یہاں اپنے مذہب کے موافق قول مل گیا تو اس صورت میں بھی وہ اپنے مذہب حنفی پر قائم رہے؛ لیکن اگر کوئی مسئلہ ایسا نکلا جس کی بنیاد کسی کمزور قیاس یا بے جان استنباط پر تھی اور اکثر علماکے عمل سے یا کسی ایسی حدیث صحیح سے اس کی مخالفت ہورہی تھی ، جس پر فقہانے عام طور سے عمل کیا ہے، تو ایسی حالت میں