حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
سارے علوم کا اگر مرکز آپ دین کو بنالیں گے کہ ہم اس کی ترویج و تبلیغ اور فروغ کے لئے یہ تمام چیزیں حاصل کر رہے ہیں ، یہ سب چیزیں آپ کے حق میں دین بنتی چلی جائیں گی، دنیا ہی کارآمد نہیں ہوگی بلکہ دنیا کے ساتھ آخرت کا اجرو ثواب مرتب ہونا شروع ہوجائے گا۔ اگر دین اور کتاب و سنت کو مرکز بنایا جائے اور تمام علوم و فنون اس کے ارد گرد گھمائے جائیں جن کا مقصد یہ ہو کہ اس علم کو آگے بڑھانا ہے، اس کے ذریعہ سے لوگوں کی اصلاح کرنی ہے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو صالح بنانا ہے تو ہر علم و فن کام دے گا اور ہر علم و فن باعث اجر اور باعث صلاح و تقویٰ بنے گا۔مدارسِ دینیہ کے نصاب میں تبدیلی کا معاملہ مدارسِ دینیہ کے نصاب میں تبدیلی کی آوازیں ، دانشورانِ ملت اور خود مدارس کے فیض یافتگان کی طرف سے بھی بارہا اٹھتی رہتی ہیں ، مولانا ابوالکلام آزادؒ کی جس تعلیمی کانفرنس کا ذکر پچھلے اوراق میں آچکا ہے، اس میں بھی صدر کانفرنس کی حیثیت سے مولانا آزادؒ نے اپنی صدارتی تقریر میں مدارس عربیہ کے نصاب تعلیم اور طریقۂ تعلیم پر سخت تنقید فرمائی تھی اور کہا تھا کہ اِس طریقہ تعلیم اور نصاب تعلیم کے بہت سے گوشے وقت کے تقاضوں اور ضرورت کو پورا کرنے سے عاری اور یکسر خالی ہیں جنہیں بہت جلد پورا کردینے کی ضرورت ہے۔ ۱۳۵۸ھ میں حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمہ نے افغانستان کا جو سفر کیا تھا، اس میں یہ ساری باتیں زیر غور تھیں ، سفر افغانستان کی روداد کا یہ حصہ خود حکیم الاسلامؒ کی زبانی سنئے۔ افغانستان کے وزیر تعلیم سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’پہلی ملاقات میں وزیر صاحب معارف نے جو ایک نوجوان قابل اور پیر س کے تعلیم یافتہ ہیں ، مذہبی طبقہ کی روش پر مخلصانہ تنقید اور مذہبی مدارس کے نصاب پر چند برمحل شکوک کا اظہار فرمایا اور اس کا شکوہ شد و مد سے کیا تھا کہ علماء اسلام دولتی اور سلطنتی امور پر دسترس نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی تربیت ایسے انداز پر مبنی ہوتی ہے کہ وہ ملکی ادارہ میں حصہ لے سکیں ۔ اس سلسلے میں ان شکوک کے جوابات عرض کئے گئے نیز موجودہ اور نصابِ دینیات کو ایک بنیادی نصاب ثابت کرتے ہوئے اس سے بھی انکار نہیں کیا گیا کہ ضروریات زمانہ کی رعایت کے ماتحت اس نصاب میں کمی بیشی کا امکان ہے اور دارالعلوم نے اس طرح کے وقتی مقتضیات اور ان کے ماتحت نصابی