حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
نبی اپنی ہی مخصوص قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور میں دنیا کے تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔‘‘(۱۳)دعوت دین اور نیشنلزم (وطنیت) اسلام وطنیت کے بت کو پاش پاش کرتا ہے۔ یہ عالمگیر دین نیشنلزم کے تصور اور نظریہ کو ایک خطرناک جہالت متصور کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے وطنیت کی باطل خدائی کو مذہب کا کفن قرار دیا ہے اور اس بت کو پیوند خاک کرنے کی تلقین کی ہے۔ ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھادے اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے ’’وطن کی محبت اسلام کا جز ہے‘‘ یہ ایک گڑھی ہوئی حدیث ہے۔ اس کی کوئی سند نہیں ۔ عبداللہ عزام نے علامہ ابن حزم کے حوالہ سے اسے لغو اور گڑھی ہوئی حدیث قرار دیا ہے۔ (دیکھنا قافلہ چھوٹ نہ جائے) اسلام کا نعرہ ہے لاشرقیۃ ولاغربیۃ الاسلامیۃ اسی طرح دین کی دعوت وطنی سرحدوں اور حدبندیوں سے آزاد دنیا کے ہر خطے اور علاقے کے لئے ہے۔ حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ اس حقیقت کو بڑے مدلل انداز میں تحریر کرتے ہیں : ’’اسلام نے ان تعلیمات کا خاص اہتمام کیا ہے جو اسے پھیل جانے اور ہمہ گیر بن جانے میں خاص اثر رکھتی ہوں اور اس کی عالمگیر تبلیغ کے لئے متقاضی ثابت ہوں ۔ مثلاً وہ وطن حدبندیوں سے آزاد ہو اور ساری دنیا اس کا وطن ہو تو حضرت داعی اسلام Bنے فرمایا: جُعِلتُ لِیَ الارض مسجداً و طہوراً (ابن ماجہ) میرے لئے ساری زمین کو مسجد اور ذریعہ پاکی بنایاگیا ہے۔‘‘ دوسری جگہ حلقہ بگوشان اسلام کو سارے عالم کی فتوحات کی بشارت اور ترغیب دیتے ہوئے فرمایا جس کا مقصد ساری دنیا کو ان کا وطن باور کراتا ہے: ستفتح علیکم ارضون و یکفیکم اللہ فلا یعجز احدکم ان یلہو باسھمہٖ۔ عنقریب تم پر زمینیں فتح ہوں گی اور خدا تمہارے لئے کافی ہے مگر پھر بھی تم میں سے کوئی شخص تیر اندازی (فنونِ جنگ) سے عاجز نہ ہوجائے۔ ایک جگہ مغرب و مشرق کی فتوحات کی بشارت دیتے ہیں :