حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
دولت ہم تک پہنچی ہے۔ گوآج کی تاریخ میں آزادی کا پارسل ہمیں بیک دم اور پر امن طریق پر اچانک شب کے بارہ بجے موصول ہوگیا لیکن وہ کتنے تاریک سمندروں سے گزرتا ہوا ہندوستان پہنچا، کتنے طوفانوں میں سے نکلا،اور کتنی خطرناک خلیجیں اس کی راہ میں حائل ہوئیں جن کا کتنے ہی آہنی قسم کے انسانوں نے مقابلہ کیا۔‘‘ خطبات حکیم الاسلامؒ کے مرتب لکھتے ہیں کہ: ایک موقع پر یہ مضمون ارشاد فرما رہے تھے کہ مطالب ومعانی کو صرف الفاظ سے ہی نہیں ادا کیا جاتا بلکہ لب ولہجہ اور انداز تکلم سے بھی الفاظ میں معنی بھرے جاتے ہیں اوراس کی مثال میں اردو کا ایک فقرہ’’کیا بات ہے‘‘ پیش کیا کہ یہ انکار کے لیے بھی ہے اور اقرار کے لیے بھی۔ استفہام کے لیے بھی اوراخبار کے لیے بھی۔ دادوتحسین کے لیے بھی ہے اور زجرتوبیخ کے لیے بھی۔ مرتب موصوف لکھتے ہیں کہ ایک گھنٹے تک حضرت حکیم الاسلامؒ’’کیا بات ہے‘‘ کی تشریح کرتے رہے اور مجمع آپ کے بیان سحر سے عش عش کرتا رہا۔ حضرت حکیم الاسلامؒ اردو کے علاوہ فارسی اور عربی پربھی اچھی دسترس رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ ان دونوں زبانوں میں بھی ضرورت کے وقت تقریر فرماتے۔ بالخصوص فارسی پرایسے زمانے میں عبور جب کہ ہندوستان سے اس کی طنابیں کب کی اکھڑچکیں ، نیز شعروشاعری سے فطری شغف اور اس کا ملکہ جس کی مثال’’عرفانِ عارف‘‘ کے نام سے آپ کا شعری مجموعہ ہے یہی وہ سب صلاحیتیں تھیں جنھوں نے مل کر آپ کے لسانی اور ادبی ذوق میں غیر معمولی نکھار پیدا کردیاتھا۔تاثیر کلام خطبے کی تعریف لغت میں اس طرح کی گئی ہے کہ:’’وہ ایسے نثری کلام کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ متکلم(خطیب) لوگوں کی جماعت کو خطاب کرکے اسے (اپنی بات کا) قائل بناتا ہے‘‘۔ (الکلام المنثور یخاطب بہ متکلم فصیح جمعا من الناس لإقناعہم۔المعجم الوسیط) اقناع (Convincing) کا عمل بغیر کلام کی تاثیر کے ممکن نہیں ، تاثیر اقناع کے مقدمے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت حکیم الاسلام ؒکے خطبات کی انتہائی اہمیت وافادیت ان کی اس خوبی ٔ تاثیر میں مضمر ہے۔یہ تاثیر کیسے اور کیوں کر پیدا ہوتی ہے؟ حضرت حکیم الاسلامؒ خود اپنے لفظوں میں اس پر اس طرح روشنی ڈالتے ہیں : متکلم کے قلبی جذبات مخاطب پراثر انداز ہوتے ہیں ، زبان تو محض آلۂ ظہور ہے۔اس لیے قلب میں خوف وخشیت ،تقویٰ وطہارت اور تعلق مع اللہ ہے تو معمولی درجہ کے مضمون سے سامعین متاثر ہوتے ہیں ورنہ اونچے درجے کے علوم ومعارف بھی دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ‘‘۔