حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
موضوع رہا ہے۔ اس عنوان پر مختلف انداز میں دادِ تحقیق دی جاتی رہی ہے۔ مختلف نظریات، مختلف جہتیں پیش کی جاتی رہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔نصاب تعلیم سے متعلق حضرت حکیم الاسلامؒ کا نقطۂ نظر ایک جلیل القدر عالمِ دین، بلند پایہ خطیب و انشا ء پرداز و مفکر، دینی مصالح و حکمتوں کے رمز شناس اور ایک طویل عرصہ تک ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند کے فعال مہتمم کی حیثیت سے حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس اہم اور حساس موضوع سے الگ کیسے رہ سکتے تھے جب کہ ام المدارس دارالعلوم دیوبند سمیت سارے مدارس دینیہ کے لئے یہی چیز جڑ، بنیاد اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اورا سی سے مدارس کے اُن مقاصد کا حصول ہوتا ہے جو ۱۸۵۷ء کے اور تحفظ ایمان و عقیدہ کی صورتیں پیدا ہوئیں ۔ حضرت علیہ الرحمہ نے دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس دینیہ کے نصاب تعلیم کے تعلق سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ بھی کسی ماہر تعلیم سے گفتگو کے ضمن میں ہے، کبھی کسی تعلیمی کانفرنس کے اندر ہے، کبھی کسی تعلیمی ادارہ کا جائزہ لیتے اور معائنہ کرتے ہوئے بیان ہوئے ہیں ۔ نصابِ تعلیم سے متعلق حکیم الاسلامؒ کی گفتگو یا خیالات صرف عربی مدارس تک محدود نہیں بلکہ عصری درسگاہوں ، جامعات اور یونیورسٹیوں کو بھی اس دائرے میں رکھا گیا ہے۔ یہاں تک کہ مکاتب کے نصاب میں اظہار خیال ہوا ہے۔ ہماری آئندہ کی سطور سبھی سے متعلق اس اجمال کی تفصیل ہے۔قوم کی برتری اور بقاء، صرف صحیح تعلیم کے ذریعے حضرت حکیم الاسلامؒ فرماتے ہیں کہ کسی قوم کی ترقی، برتری بلکہ بقاء صرف صحیح تعلیم پر منحصر ہے لیکن تعلیم، صحیح کب ہوگی، اس کے عناصر اور اسباب و عوامل کیا ہیں ، انہیں جاننے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ باتیں حضرت حکیم الاسلامؒنے اِس موقع پر فرمائیں ۔ جب ۲۲؍فروری ۱۹۴۷ء کو مولانا ابوالکلام آزادؒ نے اسمبلی ہال لکھنؤ میں ایک ’’تعلیمی کانفرنس‘‘ بلائی تھی جس کا موضوع ہی عربی و فارسی کا نصاب تعلیم تھا۔ اس کانفرنس میں ملک کی نامور علمی شخصیات شریک ہوئیں اور حاصل کانفرنس جو تقریر مقرر پائی وہ حضرت حکیم الاسلامؒ کی تقریر تھی، خود داعی کانفرنس حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حکیم الاسلامؒ کی تقریر