حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
دارالعلوم دیوبند کاآخری چراغ گل ہو گیا مولانا سمیع الحق صاحب اکوڑہ خٹک، پاکستان داغ فراق صحبت ِ شب کی جلی ہوئی اک شمع رہ گئی تھی سووہ بھی خموش ہے دارالعلوم دیوبند کی محفل دوشیں کا وہ چراغ ِ سحر جو پچھلے دوسال سے حوادث وانقلابات ِ زمانہ کے جھونکوں سے بجھ بجھ کر بھی ٹمٹما رہا تھا بالآخر شوال۱۴۰۳ھ کے پہلے ہفتے میں ہمیشہ کے لیے خموش ہوگیا یعنی حکیم الاسلامؒ مظہر ِ انوارِ قاسمیہ ،مسند نشین جامعہ دیوبند، ترجمانِ حقائق اسلامیہ حضرت مولانا محمدطیب صاحب قاسمیؒ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور دیوبندی مکتب ِ فکر کے اس میر مجلس کے بساط لپیٹ دینے سے محفلیں اجڑگئی ہیں اور ہرسو وحشت اور ویرانگی کا سا عالم ہے اب اس دور کا بالکل خاتمہ ہوگیا ہے جو شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، علامۃ العصر مولانا انورشاہ کشمیریؒ، شیخ الاسلام علامہ شبیر احمدعثمانی ؒ کا یادگار تھا۔ان کی ذات ان اکابر کی نہ صرف بقیۃ السلف نشانی تھی بلکہ ان کی ذات میں ان تمام اکابر واساطین دیوبند کی نسبتیں ، جمع تھیں ۔ اور وہ زندگی بھر اپنی ذاتی حسبی اور نسبی گوناگوں خصائل وکمالات کی وجہ سے ان تمام اکابر کے محبوب بن چکے تھے۔ بلاشبہ ان کی ذات ِ محبوبیت میں تماشاگاہِ عالم تھی۔وہ اس گلشن علم ومعرفت کے مالی اور شجرئہ طوبیٰ کے امین تھے۔جس کے لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ۔حاجی امداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ اور شہدائے بالاکوٹ نے زمین ہموار کی۔جس کی داغ بیل حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ اور فقیہ الاسلام مولانا رشید احمد گنگوہی نے ڈالی اور جس کی آبیاری میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ علامۃ العصر مولانا انورشاہ کشمیریؒ ۔شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ؒ جیسے عمائدین امت نے اپنی زندگی تج دی۔