حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلام ؒ کی ہمہ جہت شخصیت حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہٗ کی ذات گرامی دارا لعلوم دیوبند کے اس بابرکت دور کی دلکش یادگار تھی، جس نے حضرت شیخ الہندؒ، حضرت حکیم الامت تھانویؒ، حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت شیخ الاسلام علامہ عثمانی ؒ اور ان جیسے دوسرے حضرات کا جلوہ جہاں آراء دیکھا تھا۔ جس ہستی کی تعلیم و تربیت میں علم و عمل کے ان مجسم پیکروں نے حصہ لیا ہو اس کے اوصاف و کمالات کا ٹھیک ٹھیک ادراک بھی ہم جیسوں کے لئے مشکل ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ حضرت حکیم الاسلام ؒکے پیکر میں معصومیت، حسن اخلاق اور علم و عمل کے جو نمونے ان آنکھوں نے دیکھے ہیں ان کے نقوش دل و دماغ سے محو نہیں ہو سکتے۔ حضرت حکیم الاسلام محمد طیب صاحب قدس سرہٗ بانی دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کے پوتے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ نے حکمت دین کی جو معرفت حضرت نانوتویؒ کو عطا فرمائی تھی اس دور میں حضرت حکیم الاسلامؒ اس کے تنہا وارث تھے حضرت نانوتوی رحمہ اﷲکے علوم کو جن حضرات نے اپنے مزاج و مذاق میں جذب کرکے انہیں شرح وبسط کے ساتھ امت کے سامنے پیش کیا ان میں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی قدس سرہٗ کے بعد حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ حضرت حکیم الاسلامؒ کو تعلیم سے فراغت کے بعد تدریس و تصنیف کے لئے باقاعدہ وقت بہت کم ملا۔ اور نوعمری ہی میں دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم الشان ادارے کے انتظام و انصرام کی ذمہ داریاں ان کے کندھوں پر آگئیں ۔ ان ذمہ داریوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسان کو عموماً علمی مشاغل سے دورکرکے اس کی علمی استعداد پر بہت برا اثر ڈالتی ہیں ۔ لیکن حضرت حکیم الاسلامؒ کا معاملہ اس لحاظ سے