حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: راس الحکمۃ مخافۃ اللہ حکمت کی جڑ اللہ کا خوف ہے۔ لیکن ہم نے جو حکمت کا مطلب گھڑ لیا ہے۔ ا س کی بنیاد کا منشا یہ ہے کہ پہلے اللہ کا خوف دل میں رکھ لیا جائے پھر اس کے بعد حکمت کی راہیں متعین کی جائیں جب کہ ہم حکومت، دشمنان اسلام کی قوت اور آزمائشوں کے خوف کو دل میں پال پال کر پھر پالیسیاں طے کرتے ہیں کہ اسی طرح دعوت دی جائے اُس طرح دعوت اِلاّ اللّٰہ پیش کیا جائے لا الٰہ غائب کر دیا جائے۔ دعوت اور تحریک ایسی ہو جس سے دشمنان کے مظالم اور راہ حق کی آزمائشوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بے جا رواداری کا نام لے کر حکمت کی پٹیاں پڑھا کر مصلحت کی لوریاں دے دے کر ارباب حل و عقد اور ارباب دانش ایک طویل عرصہ سے امت کو خواب غفلت میں ڈالے ہوئے ہیں اور انسانیت کو ضلالت و گمراہی میں بھٹکنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں ، تمہارے علی الناس اقامت دین کی کما حقہٗ ادائیگی کریں ۔مداہنت دعوت دین کی راہ میں ایک خطرناک مداہنت سے سابقہ پڑتا ہے۔ جب دعوت کی مقبولیت اور غلبہ دین کی سطوت کو روک نہیں پاتے تو وہ مداہنت کا شیطانی جال پھینکتے ہیں ۔ کچھ دے دلا کر جاہ و اقتدار، دولت وغیرہ دے کر داعیٔ کا منہ بند کرنا اور مداہنت و مفاہمت کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ کے قدموں میں سرداران قریش عرب کی بادشاہت، دولت اور ہستی کو لا کر ڈال دیا اور آپ سے مطالبہ کیا کہ صرف ہمارے بتوں کو برا بھلا نہ کہو۔ آپ نے پوری جرأت کے ساتھ اس مطالبہ کو ٹھکراتے ہوئے کہا کہ اگر میرے ایک ہاتھ میں چاند، دوسرے میں سورج دے دیا جائے تب بھی میں اس کام سے باز نہیں آئوں گا۔ رسول اللہؐ کے پاس اس اسوہ کو سامنے رکھ کر ہی داعیان کرام اپنا جائزہ لیں کہ کس طرح سے بغیر کسی پیشکش کے ہی ہم باطل اقتدار کی خوشنودی ان کی پارلیمنٹوں کے ممبر بننے کے لئے کتنا تگ و دو کرتے ہیں ۔ طرہ یہ کہ اس طرح دعوت و تبلیغ کا کام آسان ہوجائے گا۔ یہ تو عقلی دیوالیہ پن کی علامت ہے اور غلامانہ ذہنیت کی عکاسی ہے۔ سچ کہا ہے علامہ اقبال نے سو غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر بے جا رواداری، مداہنت اور اصولوں کی قربانی، دعوت دین کے لئے سم قاتل ہے۔ دین کا مزاج کسی