حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حضرت تھانویؒ ہی کا یہ تجدیدی کارنامہ ہے آج تصوف محض رسوم ورواج کا نام نہیں ہے، بلکہ درجۂ ’’احسان‘‘ تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے۔ آپ ہی کے ’’اعتدال فکرو نظر‘‘ کے نتیجے میں ایسے ایسے عقلیت پسند مرتبۂ احسان پر فائز ہوئے ہیں ، کہ جن کو اعتدال کے علاوہ کوئی دوسری چیز متأثر نہیں کرسکتی تھی۔حکیم الاسلام اور اعتدال حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس عالم وجود میں آنے کے ساتھ ہی تسلسل اعتدال کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔ آپ جہاں علوم ظاہری وباطنی کے جامع تھے، وہیں ’’فکر ولی اللّٰہی‘‘ اور ’’حکمت قاسمیہ‘‘ کے امین بھی تھے، ایک طرف آپ علوم شریعت میں محدّث عصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے نابغۂ روزگار شاگرد تھے، تو دوسری طرف راہِ طریقت میں مجدد عصر حضرت تھانویؒ کے خلیفۂ مجاز۔ قرآن وسنت سے ابلنے والے چشموں نے ’’فکر ولی اللّٰہی‘‘ اور ’’حکمت قاسمیہ‘‘ کی آمیزش کے ساتھ جب اس شخصیت کو سیراب کیا، تو جامعیت واعتدال کا ایسا نمونہ امت کے سامنے آیا، جو آیت قرآنی ’’وکذلک جعلناکم أمّۃ وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس‘‘ کی عملی تفسیر تھا، بلکہ اس عظیم شخصیت نے اپنی تحریر وتقریر کو، اپنی زبان وقلم کو، اپنے ذہن وفکر کو، غرض یہ کہ اپنی پوری زندگی کو اس آیت کی تفسیر کے لیے وقف کر دیا۔ یہ آپ ہی کی ذات گرامی کا حق تھا کہ آپ جامعیت واعتدال سے اس طرح پردہ کشائی کریں کہ ’’مسلک دیوبند‘‘ اپنے تمام اصول وفروع سمیت ایک جامع اور معتدل ’’مکتب فکر‘‘ بن کر سامنے آئے۔ یہ آپ ہی کا طرّہ امتیاز تھا کہ آپ نے علمائے دیوبند کے دینی رخ اور ان کے مسلکی مزاج کو اس اعتدال وجامعیت کے ساتھ بیان فرمایا کہ امت کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ دیوبندی مکتب فکر ’’ما أنا علیہ وأصحابي‘‘ کا حسین پرتو ہے۔ حکمت سے لبریز آپ کے خطبات کو سننے اور پڑھنے والے اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں کہ آپ جب قرآن وسنت پر گفتگو فرماتے تو اپنے استاذ علامہ کشمیریؒ کا عکس نظر آتے، اسرار شریعت پر بولتے تو ایسا لگتا کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی روح گویا ہے۔ حضرت نانوتویؒ کے علوم ومعارف کے تو آپ وارث وامین تھے جب کہ حضرت تھانویؒ کے تزکیہ وتربیت نے آپ کو سلوک واحسان کے بلند مرتبے پر فائز کر دیا تھا۔ آپ کی شخصیت سازی میں یہ عناصر اربعہ برابر کے شریک تھے، اور انھی عناصر اربعہ کے امتزاج نے آپ کے مزاج میں اعتدال وجامعیت پیدا کر دی اور افراط وتفریط سے گویا آپ کو طبعی طور پر نفرت ہوگئی۔ غلو وتقصیر سے اظہار بیزاری کرتے ہوے آپ تحریر فرماتے ہیں کہ: افراط وتفریط