حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
و مایکون حضورB کے لئے ثابت کرنے کی غرض سے بعض احادیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے حضرت حکیم الاسلامؒ نے بالاستیعاب ان دلائل کا علمی جائزہ لیا ہے اور ہر ایک کا شافی اور مدلل و مبرہن و غیر مبہم الفاظ میں رد کیا ہے۔ بحث کے آخر میں آپ نے حکیمانہ اندازمیں مسئلہ کو پرکھ کر کھوٹے اور کھرے کو علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے اس سلسلۂ بحث میں علم غیب کی حقیقت و ماہیت کو پیش کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ عقلی طور پر بھی علم کلی مخلوق کے لئے ممکن نہیں ، آپ نے نظامِ کائنات کی قدرتی ترتیب کو پیش کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ایک حقیر سے حقیر جز کا بھی علم و ادراک اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ موجودہ اور ممکنہ کائنات کا یہ سارا کلیاتی نظام اپنی حقیقت سمیت علم میں نہ آجائے اور ذہن ان سارے حقائق و کلیاتی نظام اپنی حقیقت سمیت علم میں نہ آجائے اور ذہن ان سارے حقائق و کلیات کا احاطہ نہ کرلے اور یہ انسانی بساط سے باہر ہے، یہ کلامی اور فلسفیانہ بحث پچاسوں صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہ کتاب کا آخری حصہ اتنا بلند اور دقیق ہے کہ جن لوگوں کے دل و دماغ کی تطہیر کے لئے یہ کتاب لکھی گئی ہے ان کے مبلغ علم سے کہیں بلند اور دقیق ہے، لیکن جو لوگ معقول اور معقول دلائل کے متلاشی ہیں ان کے لئے یہ کتاب تسلی بخش دلائل فراہم کرتی ہے اور ذہن کے سارے خلجان کو دلیل و برہان کی روشنی میں دور کرتی ہے اور مسئلہ کے صحیح پہلو کو متعین کرتی ہے، یہ متکلمانہ بحث دیکھ کر مفکر اسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی کی یاد آجاتی ہے جنہوں نے ایک نئے علم کلام کی بنیاد ڈالی اور دشمنانِ اسلام کے منہ بند کردئیے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ نے بھی اس سے حظ وا فر پایا ہے یہ دیکھ کر یہ یقین کرنے پر دل مجبور ہے۔اسلام کا اخلاقی نظام ہندوستان میں انگریز آئے تو ان کے ساتھ ہی عیسائیت بھی آئی دونوں کو ایک دوسرے کے سہارے کی ضرورت تھی، عیسائی مذہب کی سرگرمیوں اور ہنگامہ آرائیوں کا مقصد سیاسی استحکام کے سوا اور کچھ نہیں تھا، مگر بڑے پیمانے پر عیسائی پادریوں کی فوج تیار کی گئی اور اس نے ہندوستان میں مسلمانوں سے پنجہ آزمائی شروع کردی۔ بڑے بڑے مناظر ہوئے، قدرت بھی وقت کے لحاظ سے افراد پیدا کرتی ہے۔ علماء اسلام میں بھی ایسے افراد پیدا ہوئے جنہوں نے عیسائیوں کے تار پور بکھیر کر رکھ دئیے مگر پھر عیسائیت نے ہندوستان میں اپنے قدم جمالئے اور لاکھوں ہندوستانی عیسائی ہوگئے۔ ہندوستانی عیسائیوں میں بھی کچھ