حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
b دین کی دعوت متضاد ادیان کے درمیان تصادم ہے۔ لہٰذا اسی راہ کو پرامن طریقے سے سرکرلینا ناممکن ہے۔ حق کی دعوت پر باطل کا بحیثیت مجموعی چڑنا لازمی ہے۔ واضح رہے کہ یہ راہ پھولوں کی راہ نہیں ۔ یہ میدان کانٹوں بھرا ہے۔ یہ پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے۔ b کامیابی و ناکامی اللہ کے ہاتھ ہے ہمارا کام صرف جدو جہد اور کوشش ہے۔ ایک داعی کا کام یہ نہیں کہ وہ مایوس ہو کر بیٹھ رہے یا کامیابی کے لئے غلط راہوں پر چل پڑے۔ کامیابی کے لئے جانفشانی صبر و ثبات اور تقویٰ کی ضرورت ہے۔دعوت دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کی ضرورت حکیم الاسلام ؒنے دعوت دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کی ضرورت کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ آپ رقم طراز ہیں : ’’پھر اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر جنگی سفروں کا حکم دیا گیا اور کسی ایک خطبہ کا نہیں بلکہ جہاں بھی ضرورت محسوس ہو اور ارباب مہیا ہوجائیں پھر جہاد میں مزید سہولت کرنے کے لئے نماز آدھی فرمادی گئی۔ سفر جہاد کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کے اختیار نہ کرنے پر ملامت فرمائی گئی ہے۔ یٰایھا الذین اٰمنوا مالکم اذا قیل لکم انفروا فی سبیل اللّٰہ الثاقلتم الی الارض ارضیتم بالحیوۃ الدنیا من الآخرۃ فما متاع الحیوۃ الدنیا فی الآخرۃ الاقلیل۔ (اے ایمان والو تم کو کیا ہوگیا جب تم سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ کے راستہ میں سفر کرو تو تم بھاری بھرکم بن جاتے ہو کیا تم دنیا کی زندگی سے راضی ہوگئے ہو تو یاد رکھو آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کچھ بھی نہیں مگر کم۔(۲۲) اگر چہ مولانا محمد طیب صاحبؒ نے اسلام کی عالمیت کو واضح کرنے کے لئے اعلاء کلمۃ اللہ کی راہ میں جہاد کی ضرورت کو پیش کیا ہے لیکن محض یہی پیش کرنا ان کا مقصود نہیں ہے بلکہ آپ نے واضح طور پر اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کی ضرورت کو بیان کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جہاد غلبہ اسلام اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے ناگزیر ہے۔ دعوتِ دین کی پشت پر جہاد کی قوت دعوت کو موثر بناتی ہے بایں مکی دور کی نسبت مدنی دور میں اسلام کی خوب اشاعت ہوئی۔ جوق درجوق لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ محض اخلاق کی قوت، موعظۃ حسنہ اور حکمت عملی کی جہ سے دعوت دین اور اشاعت اسلام کا کام موثر نہیں ہو سکتا۔ مکی دور میں ان تمام روحانی