حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
دارالعلوم کا مسلک حاصل کلام یہ ہے کہ ذیل میں ’’مسلک دارالعلوم‘‘ کا جو تفصیلی تعارف کرایا جارہا ہے وہ تنہا کسی ایک ذات کی جودۂ طبع یا ترواشِ قلم نہیں ہے بلکہ اس پر زمانہ کے مسلم ’’دیوبندیوں ‘‘ کی مہر تصدیق ثبت ہے خواہ وہ سکوتی ہی ہو، اس کے بعد ’’مسلک دارالعلوم‘‘ نامی رسالہ کے مصنف کے الفاظ میں اس کا تعارف سنئے۔ علمی حیثیت سے یہ ولی اللہی جماعت، مسلکاً اہل سنت والجماعت ہے جس کی بنیاد کتاب و سنت اجماع و قیاس پر قائم ہے۔ (ایک دوسری جگہ مصنف نے خود ہی اس کی ایسی بلیغ تشریح کی ہے کہ پڑھ کر بے ساختہ جزاک اللہ نکلا، فرماتے ہیں کہ پہلی دو حجتیں تشریعی ہیں ، جن سے شریعت بنتی ہے اور آخری دو حجتیں تفریقی ہیں جن سے شریعت کھلتی ہے۔ اس کے نزدیک تمام مسائل میں اولین درجہ نقل و روایت کو اور آرائِ سلف کو حاصل ہے… اس کے یہاں کتاب و سنت کی مرادات مخفی قوت مطالعہ سے نہیں بلکہ اقوال سلف اور ان کی متوارث مذاق کی حدود میں رہ کر، نیز اساتذہ اور شیوخ کی صحبت و ملازمت اور تعلیم و تربیت ہی سے متعین ہو سکتی ہے۔ اسی کے ساتھ بطریق اہل سلوک جو رسمیات رواجی طریقوں اور نمائشی حال و قال سے مبرا اور بری ہے۔ تزکیہ نفس اور اصلاح باطن بھی اس مسلک میں ضروری ہے۔ مزید فرماتے ہیں : ’’دارالعلوم نے اپنے جامع مسلک میں حدیث، تفسیر، فقہ، اصول فقہ، کلام، تصوف، (یا احسانی صفت جس کا اصطلاحی نام تصوف ہے) حقیقت اور معرفت یعنی جملہ و دینی علوم اور مقامات کے مختلف الالوان پھولوں کا ایک گلدستہ ایسے جامع انداز میں پیش کیا کہ تمام مسلکی طبقات کے ایک نقطہ پر جمع ہونے کی صورت پیدا ہوگئی۔ (۱) دارالعلوم کے دستور اساسی میں (ص۶ پر دارالعلوم کے مسلک و مشرب کی مختصر تشریح اس طرح کی گئی ہے : دارالعلوم دیوبند کا مسلک اہل سنت والجماعت حنفی مذہب اور اس کے مقدس بانیوں (حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ قدس سرہما) کے مشرب کے موافق ہوگا۔ (۲) مشر ب اس سے پہلے اور بھی اوپر کی سطروں میں دستور کے حوالے سے دارالعلوم کے مسلک کے ساتھ مشرب کا لفظ بھی آیا ہے۔ یہاں اس کی بھی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے۔