حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
لینا یعنی صبر، حلم، ضبط اور تحمل وغیرہ جو سلسلۂ تبلیغ میں عموماً جاہلوں ، ناعاقبت اندیشوں یا بدنیتوں کی طرف تلخیٔ حق کا جواب ایذا رسانی اور سخت کلامی سے دیا جاتا ہے ۔ اگر مبلغ میں صبرو ضبط ہو تو اس کے لئے تبلیغ کا میدان کبھی بھی ہموار نہیں ہو سکتا۔ آنحضرتؐ کو صبرو تحمل کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ لتبلون فی اموالکم و انفسکم ولتسمعن من الذین اوتوالکتاب من قبلکم و من الذین اشرکوا اذًی کثیرا و ان تصبروا و تتقوا فان ذلک من عزم الامور (۲۹) اسی سلسلہ کی ایک کڑی عفو درگذر ہے یعنی دشمن کی ایذا رسانی کے باوجود ان کو معاف کردینا یہ داعی کی بڑائی ہے۔ حکیم الاسلامؒ لکھتے ہیں : ’’پھر اس راستہ میں ایک صبر ہی درکار نہیں کہ مبلغ ان ایذا رسانیوں کا تحمل کرکے چپکا رہے بلکہ اسے ایک قدم آگے بڑھ کر ان شرارتوں کو معاف بھی کردینا چاہئے کہ اسی سے مخاطب انجام کار ہموار ہوجائیں گے اور انہیں کے آثار سے اس کی شفقت پہنچائی جائے گی۔ اسی لئے حضورؐ کو حکم دیا گیا تھا۔ فاعف عنھم واستغفر لھم- فاصفح الصفح الجمیل۔ آپ ان کو معاف کردیجئے اور ان کے لئے استغفار کیجئے۔ آپؐ ان سے اچھے طریقہ پر درگذر فرمائیے۔ مبلغ کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ان برائی کرنے والوں کے ساتھ بھلائی کرے اور احسان سے پیش آئے۔ صل من قطعک واعف عمن ظلمک واحسن الیٰ من اساء الیک جو لوگ تم سے بدمعالگی کریں تم ان کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا برتائو کرو اور جو تم سے برا سلوک کریں تم ان سے اچھا سلوک کرو۔ (۳۰)معیت و ملازمت داعی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخاطبوں بطور خاص مستفیدوں کی تربیت بھی کرے انہیں بتدریج دین سکھائے۔ احکام پر چلنا سکھائے نیز اس کام کے لئے ایک مدت درکار ہے۔ لہٰذا ناگزیر ہے وہ اپنے مستفیدوں کو اپنی معیت میں رکھے۔ حکیم الاسلامؒ نے خاص طور پر معیت و ملازمت کے طریقہ کو ان لوگوں کے لئے خاص کیا ہے۔ جو نومسلم ہوں جو مذہب اسلام میں نووارد ہوں جب کہ آج صورت حال ایں جارسید کہ غیر مسلموں کو دعوت دینے، نومسلموں کی تربیت کے بجائے خود مسلمانوں پر یہ کوشش قدرے زیادہ