حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حضرت حکیم الاسلامؒ، عہد ساز شخصیت ایک تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر افضل حسین قاسمی بیسویں صدی کے اواخر تک بر صغیر ہندو پاک کے افق پر علم و فضل کے بڑے بڑے آفتاب و ماہتاب رو نما ہوئے اور انہوں نے اپنی شفاف علمی و عرفانی ضو فشانی سے ملک و بیرون ملک کے طول و عرض میں خوب خوب روشنی پھیلائی۔ آج اکیسویں صدی میں انہی اصحاب علم و فضل کے محمدی افکار و نظریات کا نور ہے جو بر صغیر کی امت مسلمہ کے جبین و رخسار پہ ہویدا ہے۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ، حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن، حضرت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی، حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہم اللہ تعالیٰ، یہ وہ یکتائے روزگار شخصیات رہی ہیں جن کی دینی و ملی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں تاہم ان میں حضرت حکیم الاسلام محمد طیب صاحبؒ گل رسبد کی حیثیت رکھتے ہیں اور کیوں نہ رکھیں ، کہ بقول حضرت مولانا سید اصغر حسین میاں صاحبؒ(سابق استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند) ’’بانی دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی علیہ الرحمہ اور اکابر جماعت اہل حق کی تمام معنوی اور روحانی نسبتوں اورتمام اعلیٰ امتیازات و خصوصیات کو حق تعالیٰ شانہٗ نے ماشاء اللہ مولانا محمد طیب صاحبؒکی ذات ستودہ صفات میں جمع فرمادیا‘‘۔ چنانچہ آپ کی تحریر میں جہاں سوز و گداز ہے وہیں محبت و عقیدت میں ڈوبی ہوئی چاشنی بھی ملتی ہے اور آپ کی تقریر کے کیا کہنے، فن خطابت کے آپ شہنشاہ تھے، تقریر فرماتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ نسیم صبح گاہی محو خرام ہو، انداز گفتگو میں آب رواں کی نغمگی تھی، لب و لہجہ میں حُدی خوانوں کا سوز اور