حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حضرت حکیم الاسلام ؒ ایک مثالی شخصیت فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب کشمیری ؒ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم وقف دیوبند کس قدر خوش نصیب ہے وہ انسان جسے حسب و نسب کی شرافتیں گھر کا پاکیزہ ماحول شریف الطبع والدین، ظاہر و باطن کی تربیت، علم و تعلم کیلئے یگانۂ روزگار شخصیتیں ملی ہوں واقعی اس سے بڑھ کر کوئی سعید اور جس کے حصے میں یہ سب امتیازات ہوں اس سے بڑھ کر کوئی بخت آور نہیں ۔ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ کو یہ سب سعادتیں لگے بندھے انداز میں نہیں بلکہ وافر میسر تھیں ۔ ان کی ددیہال میں حضرت نانوتویؒ کا نام نامی کافی ووافی ہے، ننھیال دیوبند کی ایک شریف بلکہ اشرف خانوادۂ گھر کا ماحول علمی، تعلیم اور تعلم کا سلسلہ فخر روزگار شخصیتوں تک پہنچتا ہے، روحانی تربیت کے لئے مجدد وقت سے وابستگی ہے، خود طبعاً شریف حلم کے پیکر، بُزرگانہ ادائوں کا مرقع۔ اب ذرا تفصیل اس اجمال کی سنئے والد مولانا احمد صاحبؒ مزاج کے خسرو پیدا ہوئے۔ یہ وہ دور تھا کہ جب نسبتیں سب سے زیادہ بارآور چیز تھیں ۔ پھر ان کی نسبت حضرت نانوتویؒ ایسے فرد فرید سے، تجویدی لب و لہجہ میں گفتگو کرتے، مکلف زندگی بلکہ ٹھاٹ باٹ، لب و لہجہ شاہانہ مگر سینے میں دل برف کی سل بگڑتے تو جوالہ، سنبھلتے تو برگِ گل، طلباء کے ساتھ تعلق دیدنی و شنیدنی، کوئی طالب علم بیمار ہوتا تو عیادت کے لئے بار بار اس کی رہائش پر پہنچتے، اگر اس کی موت ہو جاتی تو حجرہ کے سامنے بیٹھ کر تعزیت لیتے کیا مجال کوئی استاد اور کارکن حافظ صاحب کو تعزیت نہ پیش کرے۔ مسجد کا بڑا احترام ملحوظ تھا، اوابین وہیں پر ادا کرتے ایک روز صحن مسجد میں کسی طالب کو ٹانگ پر ٹانگ