حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
بندوں کے لئے اسلام کے تین مقاصد (۱)عالمی عبادت (۲)عالمی سیاست (۲)عالمی مدافعت۔ ان تینوں سے انسان کی صلاح و فلاح اور سعادتِ دارین وابستہ ہے۔ ان تینوں کو تین مقامات مقدسہ مکہ، قدس، طو رسے متعلق کیا گیا۔ مکہ کو اصلِ عالم، مرکزِ عالم، وسط عالم بنایا گیا یَااَھْلَ مکّۃ انکم فِی وَسط مِنَ الاَرض بحِذاء وسط السَّمائِ (۱) مکۃ ام للقریٰ و مرو ام خراسان ۔(۲) قرآن کا ارشاد لِتُنْذِرَ امّ الْقُرٰی تاکہ آپ ڈرائیں ام القریٰ (مکہ) کو اور اس کے ماحول کو، ماحول میں ماحول قریب اور ماحول بعید دونوں شامل ہیں ۔ ماحول بعید پورا ملک حجاز نکلتا ہے جو دارالسکینۃ والایمان ہے۔ قدس کا ماحول بعید ارض مقدسہ شام و فلسطین ہے۔ طور کا ماحول بعید مصرتک کا علاقہ ہے۔ان مرکزی مقامات کی تینوں قوتوں کو باہم ایک دوسرے کے قریب ہونا چاہئے جب کہ بظاہر ایسا نہیں ہے۔ مکہ سے قدس کا فاصلہ ۸۰۰ میل۔ قدس سے طور کا مزید فاصلہ ۴۲۵میل۔ اس طرح سے مکہ سے طور کا فاصلہ بارہ سو میل ہے لیکن جغرافیائی اصول سے یہ تینوں مقامات قرب میں ہیں ۔ دنیامیں آباد حصۂ زمین کو ایک کروڑ نوے لاکھ مربع میل بتایا گیا ہے۔ پیدل ایک انسان ۱۲ گھنٹے میں طبعی رفتار ۳۶ میل طے کر سکتا ہے۔ اس رفتار سے زمین کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہونچنے میں ۲۹ برس لگیں گے اور مکہ مکرمہ جو وسط عالم مرکز عالم ہے وہاں سے قدس تک پہونچنے میں ساڑھے ۲۲دن لگیں گے۔ اس طرح جغرافیائی اصول کے مطابق سوچیں تو ۲۹ برس کے مقابلہ میں ساڑھے ۲۲ دن کو قرب ہی شمار کیا جائے گا۔ مکۃ المکرمہ جب مرکز عالم، مرکز عبادت اور مرکز امن و سلامتی ہے تو پھر ضروری تھا کہ یہاں بدامنی، قتل و قتال اور جنگ و جدال وغیرہ ممنوع کردئے جائیں تاکہ اس کی تینوں طرح کی مرکزیت، مرکز عالمیت، مرکز عبادت اور مرکز امنیت کبھی فتنۂ و فساد سے دوچارنہ ہو اور ا س کی تقدیسی عظمت پر کبھی کوئی حرف نہ آنے پائے۔ اس لئے اس مرکز کی سلامتی اور امن کے لئے قدرتی اور غیبی سامان بھی فرمائے گئے، مذہبی تعصبات سے بدامنی کے سد باب کا ظاہری انتظام یہ کیا گیا کہ تینوں قومیں (مشرکین اور یہود و نصاریٰ) جو حجاز مقدس کے امن کو زیرو زبر کرسکتی تھیں ان کے لئے اپنے نبی کی زبان سے اس طرح اعلان کرایا گیا لاَیَجْتَمعَانِ دِیْنَانِ فِیْ جزِیْرَۃِالْعَرَب (۳) دو دین جزیرۃ العرب میں جمع نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اِنَّ الشَّیْطَانَ قَدْ