حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
ترک کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کو ترک کرتا ہے۔ اگر احادیث پر ایمان نہیں تو اس کا قرآن پر بھی ایمان باقی نہیں رہا۔ آپ نے بعض اذہان کے ان شکوک کو بھی تفصیل سے بیان کرکے ان کا ازالہ کیا ہے جو ایسی احادیث کے موقع پر پیدا ہوتے ہیں کہ ان میں کسی ایسی بات کا حکم ہے جو قرآن میں مذکور نہیں صرف کلامِ رسولB میں ان کا ذکر ہے مثلاً حمار اہلی کی حرمت، واشمہ پر لعنت و ملامت وغیرہ، حکیم الاسلامؒ نے اس کا اصولی جواب دیا ہے کہ قرآن میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ رسول جو لا کر دیں اسے لے لو اور جس سے روک دیں رک جائو۔ اب جو احکام آپ نے ایسے دئیے ہیں جو بظاہر قرآن میں مذکور نہیں ہیں وہ بھی اس آیت کی وجہ سے بالواسطہ قرآن ہی کے احکام متصور ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ نے اس طرح کے استدلالات کو احادیث کی کتابوں میں پیش کر دیا ہے۔ اس کے بعد حضرت حکیم الاسلامؒ نے احادیث کی قسموں غریب، خبر، عزیز، خبر مشہور، خبر متواتر کو آیاتِ قرآنی سے ثابت کیا ہے اور اس کا صحیح مقام اور درجہ متعین کیا ہے، یہ بحث بڑی لطیف، دلچسپ اورحقیقت آفریں ہے اور بہت تفصیلی ہے، اس حقیقت کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آیاتِ قرآنی سے استخراج نتائج و شواہد اور استنباطِ مسائل پر حضرت حکیم الاسلامؒ کی نگاہ کتنی دقیقہ رس اور نکتہ آفریں تھی یہ متکلمانہ بحث اور اس ناقابل شکست عقلی دلائل انکارِ حدیث کے فتنہ کے لئے آخری کیل سے کم نہیں ۔کلمہ طیبہ حضرت حکیم الاسلامؒکی ایک چھوٹی سی کتاب اسی نام سے ہے جو ایک ابھرتے ہوئے فتنہ کے سد باب کے لئے معرض تحریر میں آئی، آزادی سے کچھ دنوں بعدجب کہ مسلمانوں کا مستقبل غیر یقینی اور انتہائی خطروں میں گھرا ہوا تھا اور ایسامحسوس ہو رہا تھا کہ اس سرزمین پر مسلمان نام کی کوئی چیز نہیں رہ جائے گی، پھر آہستہ آہستہ زندگی کے سورج کی ہلکی ہلکی کرنیں نظر آنے لگی تھیں اور یہ آس بن چلی تھی کہ شاید کچھ دن اور یہاں نغمۂ توحید گونجے گا۔ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا نغمہ لاہوتی فضائوں میں اپنا نورانی ایمان افروز ترنم بکھیرے گا کہ جنوبی ہند سے کسی بدبخت نے ایک شوشہ چھوڑا کہ لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ جو حریم اسلام کے دروازے کی کنجی سمجھا جاتا ہے یہ صرف اہل عجم کی ذہنی اختراع ہے قرآن و حدیث میں کہیں اس شکل میں اس کلمہ کا وجود نہیں ہے اس پر مستزاد یہ چوں کہ کلمہ طیبہ کی موجودہ شکل عجم کے ذہن کی پیداوار ہے اس لئے