حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اس کے بالمقابل دینی درسگاہوں کا مقصد، دینی اداروں کا نصب العین نہ روٹی ہے نہ کرسی بلکہ نفوسِ انسانی کی تہذیب و تربیت ہے۔ حکیم الاسلامؒ فرماتے ہیں : ’’دینی درسگاہوں کا نصب العین اس دینی تعلیم سے نہ روٹی نہ کرسی، بلکہ تہذیب نفس ہے کہ اس تعلیم سے ایسے لوگ پید اہوں گے جو انسانیت کے سچے خدمت گذار ہوں اور عالم بشریت کی بہی خواہی میں اپنی جان، مال اور آبرو کی کوئی پرواہ نہ کریں ۔‘‘ پھر حکیم الاسلامؒ بہت ہی نکتہ کی بات کہتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ دینی اداروں کی کامیابی اور ناکامی جانچنے کا معیار کیا ہے؟ ’’ظاہر ہے کہ ہمیں اُن افراد کی کامیابی اور ناکامی اور اُن اداروں کے کمال و نقصان کو اسی معیار اور نصب العین سے جانچنا ہوگا جس کو لے کر یہ ادارے کھڑے ہوئے ہیں ، بلا شبہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہیں ، ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم ان کو سرکاری معیار سے جانچیں ا ور پھر ان کی تنقیص کریں ۔‘‘ آخر میں پھر فرماتے ہیں : ’’بنیادی چیز نصب العین ہے، اس سے ادارے پنپتے ہیں اور اس کے بگڑ جانے سے بگڑ جاتے ہیں ۔‘‘ اسی ضمن میں حضرت حکیم الاسلامؒ نے ایک حکیمانہ بات یہ فرمائی ہے: ’’میرے خیال میں دینی ، عربی مدارس کے رویہ میں تبدیلی پیدا کرنے سے زیادہ ضروری اور اہم یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں نصب العین کی تبدیلی کی جائے۔‘‘نصاب تعلیم میں کوئی مرکز علوم ہونا چاہئے ’’حکیم الاسلامؒ فرماتے ہیں کہ آپ علم کوئی حاصل کریں ، کسی فن کی تحصیل میں لگیں خواہ مدارس میں پڑھتے ہوئے یا کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہوئے، ہر علم و فن کا ایک مرکز ہونا چاہئے جو سارے علوم و فنون کا محور ہو، سارے علوم و فنون اسی کے گرد گھومیں اور اپنے مرکز سے لاتعلق نہ رہیں ، علوم و فنون کے نصاب میں اِس مرکز علوم کو ہمیشہ مقدم رکھنا چاہئے۔ ’’میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ دوسرے علوم و فنون کی تعلیم چھوڑدیں ، تمام علوم و فنون آپ حاصل کریں ۔ آپ سائنس، فلسفہ، ہندسہ، ریاضی اور علوم طبعیہ و عقلیہ بھی حاصل کریں لیکن ہر علم کا کوئی معیار اور مرکز بھی ہونا چاہئے جس کے ارد گرد وہ علوم گھومیں ۔