حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
’’اس دوران وزارتِ معارف نے کابل کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے معائنہ کے لئے مجھ سے فرمایا اور پروگرام بنا کر باصرار کہا گیا کہ میں اِن حکومتی اداروں اور مدارس کا معائنہ کرکے اپنی مفصل رائے بھی حکومت کے سامنے پیش کروں ۔ چنانچہ سرکاری طور پر پروگرام تیار ہوا اور ادارت کے معائنوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ حبیبیہ کالج سے ابتداء کی جو کہ انگریزی کا کالج ہے، پھراستقلال کالج جو فرانسیسی کا ہے، پھر نجات کالج جو جرمنی کا ہے اور ناکوئشہ کالج طب برائے بنات۔ اس کے بعد ناکلوتہ حقوق یعنی لا کالج جس میں قانون پڑھایا جاتا ہے اور مکتب صنائع اور میخانے کی جس میں صنعت و حرفت کی تعلیم دی جاتی ہے پھر مطبع حکومی جو سیکڑوں اعلی اور ترقی یافتہ مشینوں پر مشتمل ہے جس میں حروف کی ڈھلائی، ٹائپ، عکاسی اور نقاشی وغیرہ کا کام موجودہ دور کی اعلیٰ ترقی یافتہ صورتوں میں ہوتا ہے۔ معائنہ کے بعد احقر نے ان کالجوں پر ایک تفصیلی تبصرہ لکھ کر وزارت معارف کے سپرد کیا جس میں روادوں کی واقعی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے بعض ضروری تنقیدات و اصلاحات اور بعض مفید تجاویزیں پیش کی تھیں ۔معائنہ کی تنقیدات کا خیر مقدم کیا اس معائنہ میں عمود بحث یہ تھا کہ غیر رستہ کی تعلیم کسی ایسے مستقل اور متوازی عنوان سے نہ دی جائے جو دینیات کے ساتھ ٹکرا جائے اور قوم ہی مختلف المذاق جیسے پیدا ہو کر قومی تشتت کا باعث بن جائیں بلکہ دینی و دنیوی تعلیم مشترک طریق پر ہونی چاہئے تاکہ پیدا شدہ تفریق بھی مٹ جائے۔ نیز دینیات کے سلسلے میں دارالعلوم کا نصاب پیش کیا گیا جس کو حکومت نے قبول فرما لیا جیسا کہ بعد کے اخبارات کی خبروں سے معلوم ہوا۔‘‘مکاتب کا نصاب تعلیم حضرت حکیم الاسلامؒ کا خیال تھا کہ مکاتب دینیہ میں اردو نصاب کے ساتھ مختصر عربی نصاب بھی داخل درس ہونا چاہئے۔ چنانچہ جمعیۃ علماء ہند کے جاری کردہ نصاب تعلیم پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ ’’ضرورت ہے کہ اردو نصاب اور اردو لٹریچر کے ساتھ اب مختصر عربی نصاب بھی مسلمانوں میں رائج کیا جائے جو انہیں عربیت سے بیگانہ نہ رکھے۔‘‘ اس سلسلے میں حکیم الاسلامؒ کا مشورہ یہ تھا کہ مولانا محفوظ الرحمن نامیؒ کی مفتاح العربیہ (پانچ حصے) کو جمعیۃ علماء ہند کے تیار کردہ اردو نصاب کا جزء بتا دیا جائے۔ اس کتاب کے ذریعے بچوں میں بہت آسانی کے ساتھ قلیل مدت میں قرآنی محاورات سے لگائو پیدا ہو کر عربیت کا ذوق پیدا ہوجائے گا۔‘‘