حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
الناس بما یعرفون أتریدون أن یکذب اﷲ ورسولہ تنبیہی طورپر اس حقیقت کی ترجمانی کرتا ہے۔ حضرت حکیم الاسلام ؒ اہم سے اہم علمی، دینی اور فکری موضوعات کو سہولت وجامعیت کے ساتھ اس طرح عوام وخواص کے سامنے پیش فرمادیتے کہ استفادے کا معیار دونوں کے لیے کم وبیش یکساں ہوتا، اس کی سب سے بڑی مثال ان کی علی گڑھ کی مذکورہ بالاتقریر ہے دیکھنے کامقام ہے کہ سائنس اور اسلام کے درمیان تقابل وتجزیہ کے موضوع کو انھوں نے کس خوبی سے نبھایا ہے کتنی آسان او رجامع تعبیرات اور مثالوں کے ذریعہ اس سخت اور سنگلاخ موضوع کو عوام کے لیے قریب الفہم بنادیا ہے لیکن اس حوالہ سے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ آپ کا لہجہ عوامی تھا، عامیانہ نہ تھا جس میں خطیبانہ ادائیں توہوتی ہیں ، لیکن علمی شوکت ووقار سے خالی اور خوش بیانی اورحسن ادا توہوتا ہے لیکن پرتکلف ادب آمیزی کے ساتھ، حضرت حکیم الاسلام ؒفطری ذوق اور وہبی صلاحیتوں کے حامل تھے ان کے اندر تکلف وتصنع کاشائبہ بھی نہ تھا۔ مجمع خواہ بڑوں کا ہویا چھوٹوں کا اور وہ خود چھوٹا ہو یا بڑا، حضرت حکیم الاسلام ؒکے لب ولہجے اور انداز بیان پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مولانا تقی عثمانی مدظلہ نے حضرت حکیم الاسلامؒ کے انداز خطابت پرروشنی ڈالتے ہوئے بالکل صحیح لکھا ہے: ’’بظاہر تقریر کی عوامی مقبولیت کے جو اسباب آج کل ہوا کرتے ہیں ، حضرت حکیم الاسلام ؒ کے وعظ میں وہ سب مفقود تھے۔ نہ جوش نہ خروش، نہ فقرے چست کرنے کا انداز،نہ پرتکلف لسَّانی ،نہ لہجہ نہ ترنم، نہ خطیبانہ ادائیں ، لیکن اس کے باوجود وعظ اس قدر مؤثر ، دلچسپ اورمسحور کن ہوتا تھا کہ اس سے عوام اور اہل علم دونوں یکساں طورپر محظوظ ومستفید ہوتے تھے، مضامین اونچے درجے کے عالمانہ اور عارفانہ لیکن بیان اتنا سہل کہ سنگلاخ مباحث بھی پانی ہوکر رہ جاتے۔ جوش وخروش نام کو نہ تھا، لیکن الفاظ ومعانی کی ایک نہر سلسبیل تھی جو یکساں روانی کے ساتھ بہتی اور قلب ودماغ کو نہال کردیتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتاہے کہ منھ سے ایک سانچے میں ڈھلے ہوئے موتی جھڑ رہے ہیں ۔ ان کی تقریر میں سمندر کی طغیانی کے بجائے ایک باوقار دریا کا ٹھہرائو تھا جو انسان کو زیر وزبر کرنے کے بجائے دھیرے دھیرے اپنے ساتھ بہا کر لے جاتاہے۔ادبی اورلسانی ذوق حکیم الاسلامؒ کی تقریروں میں جابہ جا ایسے نمونے ملتے ہیں جن سے ا ن کے ادبی ذوق ومزاج کا پتہ چلتا ہے ۔ ادب صرف خوب صورت الفاظ ، نادر تشبیہات واستعارات اور شعری ترکیبوں کے استعمال کا نام نہیں ۔ ادب کے ظاہری ڈھانچے کی تشکیل میں یہ ضرور معاون ہوتی ہیں لیکن اصل چیز جس سے ’’ازدل