حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
شرافت اور رذالت، بدکرداری، نیک کرداری کا اندازہ کر لیتے ہیں ، ظاہر کو دیکھ کر باطن کا اندازہ عام طور پر کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے دوسروں کے ساتھ مشابہت کو اختیار کرنے سے منع کیا ہے۔ حضرت حکیم الاسلامؒ نے آیاتِ قرآنی و احادیث سے اپنے ہر دعویٰ کو مدلل کیا ہے اور جو کچھ بیان کیا ہے اس کو کتاب و سنت سے ثابت کیا ہے اور ہر بحث کو بڑی تفصیل سے پیش کیا ہے اور بڑی باریک بینی سے اس تشبہ کے مسئلہ اور اس کی حدود کو بیان کیا ہے۔ پوری کتاب شواہد و دلائل و براہین آیات قرآنی و احادیث سے بھری ہوئی ہے۔ اپنے موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔فلسفۂ نعمت و مصیبت یہ کتاب وجودِ باری کے منکرین کے جواب میں لکھی گئی ہے جب انہوں نے حضرت حکیم الاسلامؒ سے کچھ سوالات کئے تھے جن دنوں ہندوستان میں جنگِ آزادی شباب پر تھی اور بچہ بچہ کے دلوں میں آزادی کا سودا سمایا ہوا تھا، اس جنگ میں شریک ہر طرح کے لوگ تھے۔ ہر فرقہ، ہر مذہب اور ہر طبقہ کے افراد اپنے اپنے نقطۂ نگاہ سے اس تحریک ِ آزادی سے وابستہ تھے، جنگِ آزادی کے سورمائوں میں وہ طبقہ بھی تھا جو روس کے انقلاب سے متاثر تھا، جو اکتوبر ۱۹۱۷ء میں ہوا، اس انقلاب نے ان ہندوستانی نوجوانوں کو بے حد متاثر کیا جو ان دنوں یورپ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ روس کا یہ انقلاب درحقیقت کارل مارکس کے نظریۂ حیات کمیونزم کی کامیابی تھی یہ علمی نظریہ حیات عملی وجود کا جامہ پہن چکا تھا، یہ ہندوستانی نوجوان جب یورپ سے اپنی تعلیم مکمل کرکے آئے تو انہوں نے ہندوستان میں ایک مشنری کی طرح کمیونزم کی تبلیغ شروع کردی وہ خود عملی طور پر سب کے سب ملحد، دہرئیے، دین سے بیزار، خدا دشمن تھے کیوں کہ کمیونزم صرف ایک سیاسی دستور ہی نہیں تھا بلکہ وہ مستقبل طور پر ایک نظریہ حیات کو عملی حیثیت سے پیش کرنے والا کارل مارکس تھا اس نے اپنی کتاب کیپٹل میں لکھا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے چاہے بادشاہوں ، قومی لیڈروں ، مذہبی رہنمائوں حتی کہ رسولوں اور پیغمبروں نے وہ انقلاب پیدا کئے سب کی اساس معاشی مسائل پر تھی۔ ابتداء آفرینش سے لے کر آج تک کے سیاسی انقلاب کی تہ میں ’’روٹی بیٹی کی جنگ‘‘ کار فرما تھی اس کے علاوہ کچھ نہیں ، خدا، رسول، مذہب یہ سب روزی روٹی کا مسئلہ کو حل کرنے کی راہیں تھیں ، اس کے سوا کچھ نہیں ۔ مذہب کا وجود انسانی زندگی میں افیون کا نشہ ہے جو انسان کی قوت علمی کو سست اور بے کار کر دیتا ہے اس لئے ایک طاقتور کے لئے ضروری ہے کہ مذہب سے بہت دور ہو، اور اپنی حدود و مملکت سے اس کو دیس نکالا