حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
حضرت مرحوم کے اندر علم دین کے رسوخ کی جو کیفیت تھی وہ مقام کے درجہ تک پہنچ چکی تھی، جسے احسان کہتے ہیں ۔ یہی فضیلت کیا کم ہے اگر ا سکے ساتھ نسبی عزت و کرامت بھی حاصل ہو جائے تو سبحان اللہ سونے پر سہاگہ ہے۔ چنانچہ آپ کریم ابن کریم ابن کریم کے طغرائے امتیاز کے حامل تھے، یعنی بقیۃ السلف حضرت مولانا محمد احمد صاحبؒ کے فرزندگرامی تھے، جنھوں نے چالیس برس تک دارالعلوم دیوبند کے منصب اہتمام پر فائز ہوکر دین و ملت کی خدمت سر انجام دی ہے اور حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی ٔ دارالعلوم دیوبند کے نبیرہ تھے، جو دارالعلوم کے بانی اور اس کے نظام تعلیم و تربیت اور اصول ہشتگانہ کے مؤسس تھے۔ اور ملی اتحاد ویک جہتی اور اسلامی اجتماعیت و تنظیم کی تشکیل اور شرعی نظام کی تنفیذ اور حریت وطن کے نصب العین کی حامل تحریک جہاد کے روح رواں تھے۔ ۱۸۵۷ھ کے جہاد آزادی کے میرکارواں آپ ہی تھے، اس نسبی خصوصیت سے آپ کے تعارف میں چار چاند لگ گیا۔ یوں آپ کی بلند پایہ علمی و روحانی شخصیت تعارف و تعریف سے بے نیاز ہے، دنیا کے گوشے گوشے میں آپ کی دینی قیادت اور علمی سیادت کے کارناموں کا چرچا ہے۔اکابر دارالعلوم کے رنگوں کی جامعیت حضرت مرحوم کے شمائل و خصائص کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ کی ذات گرامی اکابر دارالعلوم کے تمام متوارت ذوق اور جملہ رنگوں کی جامع تھی، یہ صفت اسلاف میں کمیاب اور اخلاف میں نایاب ہے۔ بقیۃ السلف مولانا محمد احمد صاحبؒ کے واسطہ سے آپ کے اندر حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ بانی ٔ دارالعلوم دیوبند کی فکر و حکمت اور بالواسطہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ، فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی دعوت و ارشاد کا رنگ غالب تھا۔ یعنی حضرت گنگوہی نے سنت و بدعت کے درمیان جو حد فاصل کھینچ کر ان کے امتیازات کو نمایاں کیا ہے ان کی تشریح و توضیح آپ نے حضرت نانوتوی کی فکر و حکمت کے اصول پر فرمائی اور اس دین حنیف کی دعوت اس کی اصل فطرت کے مطابق دی جو قرون اولیٰ یعنی عہد نبوت و زمانہ خلافت راشدہ اور قرن صحابہ وتابعین سے تاریخی تواتر اور صحیح سندوں کے ساتھ اخذ و انتقال کے مراحل طے کرتا چلا آرہا ہے تجدیدات و اصلاحات کے فرائض کو امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے انجام دیا اور ان تجدیدات و اصلاحات کو علمی و تحقیقی اور فنی اعتبار سے امام انقلاب حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے مرتب و منتظم کیا اور ان کی تالیف و تدوین میں بے حد دماغ سوزی کی، چنانچہ اسلامی نظام کی تنقید کے سلسلے میں حضرت شاہ ولی اللہ کا لٹریچر مشعل راہ بن سکتا ہے۔ جس نے