حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
صاحبؒ الٰہ آبادی کو الٰہ آباد سے بلوایا گیا، جب وہ دیوبند آگئے تو حضرت شیخ الہندؒ نے حضرت مولانا احمدصاحبؒ سے گزارش کی کہ ان کو دارالعلوم میں رکھ لیا جائے تاکہ حضرت حکیم الاسلامؒ کے ساتھ دوسرے طلبہ بھی مستفید ہو سکیں ، اس طرح دارالعلوم میں شعبۂ تجوید کا اجراء ہوا گویا یہ حضرت حکیم الاسلامؒ کی برکت کا پہلا ظہور ہوا۔ حضرت حکیم الاسلامؒ فرماتے تھے کہ دارالعلوم میں شعبۂ تجوید قائم ہونے کا سبب میں ہی ہوں اور میں ہی اس شعبہ کا پہلا شاگرد ہوں ، ۱۳۲۶ھ میں جب آپ کی عمر ۱۱؍سال ہوئی آپ نے حفظ قرآن تجوید کے ساتھ مکمل فرما لیا، اللہ تعالیٰ نے آپ کو جہاں جمال صورت و سیرت سے نوازا تھا وہیں آپ کی آواز بلند تھی اور اس میں لحن دائودی بھی تھا، جس مجلس میں آپ قرآن کی تلاوت فرماتے، ایک سماں بندھ جاتا، اکابر آپ سے قرآن سنتے، حکیم الامت حضرت تھانویؒ کی خدمت میں تھانہ بھون حاضر ہوتے تو حضرت جہری نماز کے لئے آپ ہی کو آگے بڑھاتے، یہ صرف حضرت حکیم الاسلامؒ کی خصوصیت تھی، ورنہ خانقاہ تھانہ بھون کی مسجد میں حضرت تھانویؒ کی موجودگی میں دوسرا امام نہیں ہوتا تھا۔ حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد آپ نے فارسی، ریاضی وغیرہ کی تکمیل کی ۱۳۳۰ھ میں عربی میں داخل ہوئے اور آپ کی ابتدائی کتابیں بھی انہیں کے پاس ہوئیں جو علوم اسلامیہ میں امامت کا درجہ رکھتے تھے، جیسے حضرت شیخ الہندؒ، حکیم الامت حضرت تھانویؒ، علامہ انور شاہ کشمیریؒ، مفتی اعظم مولانا عزیز الرحمن صاحبؒ، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوریؒ وغیرہم انہیں حضرات اساتذہ سے علوم عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل کی اور ۱۳۳۷ھ میں آپ فارغ ہوئے۔جامع الصفات ہستی آپ کو اللہ تعالیٰ نے تمام تر خوبیوں سے نوازا تھا اور مجمع کمالات بنایا تھا، اسلاف صالحین کی تمام خصوصیات و کمالات آپ میں موجود تھیں ، حضرت مولانا اشرف علی سعودی صاحب دامت برکاتہم مدیر مدرسہ ماہی سبیل بنگلور رقم طراز ہیں : ’’حکیم الاسلامؒ! آپ علم و حکمت کا چمکتا ہوا چاند تھے جس کی خنک اور ٹھنڈی چاندنی ہزاروں کے لئے وجہ سکون اور سامان قرار تھی کسی بھی محفل میں آپ قدم رنجہ فرماتے تو واقعی محسوس ہوتا کہ ماہتاب علم و حکمت طلوع ہو رہا ہے، چادر مہتاب پھیلتی جا رہی ہے اور وہ دماغ سکون و طمانینت کی ایسی لطیف کیفیات سے