حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
تعارف کی بدولت ادارہ کی علمی حلقہ میں جو وسعت نظر آتی ہے وہ بس آپ کے دور کی خصوصیت ہوکر رہ گئی۔ ۱۳۵۵ھ میں جامعہ ازہر مصر کے مخصوص اساتذہ پر مشتمل وفد کی حاضری ہو، اور امیر وفد شیخ ابراہیم الجبالی کا آپ کے اہتمام میں دار العلوم کی علمی حیثیت اور کوائف پر مسلسل اظہار تعجب ہو، یا ۱۳۵۸ھ میں سلطان ابن سعود کی حکومت کی جانب سے مطبوعہ اہم کتابوں کا گراں قدر ہدیہ ہو، یا اسی سال حضرت مہتمم صاحبؒ کے یادگار سفر ِ افغانستان کی برکات بشکل ’’باب الظاہر‘‘ ہو۔ یا ۱۳۷۱ھ میں ایک مصری فاضل شیخ محمد ارشاد بن عبدالمطلب کی دار العلوم میں تشریف آوری اور زیارت ِ دار العلوم کو اپنے لیے باعث ِ فخر شمار کرنا ہو۔ یا ۱۳۷۳ھ میں شاہ سعود کا وارد ہند ہوکر دار العلوم دیوبند کے ساتھ اظہار عقیدت ومحبت کرتے ہوئے پچیس ہزار روپے کا عطیہ ہو، یا اسی سال انورالسادات مرحوم صدر متحدہ عرب جمہوریہ مصر کا دار العلوم میں ورود اور حضرت مہتمم صاحبؒ کی شیریں زبانی سے دار العلوم کے تعارف پر متاثر ہوکر صمیم ِ قلب سے مبارک باد ہو، یا ۱۳۷۷ھ میں محمدظاہر شاہ افغانستان کا دار العلوم میں ورود مسعود ہو، یا ۱۳۸۲ھ میں جلیل القدر شامی عالم اور مشہور محقق ،استاذ ’’جامعہ حلب‘‘ شام ۔ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی آمد اور دار العلوم کے بارے میں عظیم تاثرات ہوں ، یا ۱۳۹۳ھ میں سعودی عرب سے آئے ہوئے دووفود کا خراج تحسین ہو ، یا ۱۳۹۵ھ میں شیخ الازہر عبدالحلیم محمود کی تشریف آوری اور دار العلوم دیوبند کے عظیم کارناموں اور ہمہ جہتی خدمات کی مدحت سرائی ہو، یا ۱۴۰۰ھ میں دار العلوم کے ’’عالمی اجلاس صدسالہ میں عالمی پیمانہ پر حضرت حکیم الاسلام ؒ کا اس انداز پر دار العلوم دیوبند کو متعارف کرانے کا عالمی اعتراف وتصدیق کا بین الاقوامی مظاہرہ، اور جن کے ایک اعلان پر عالم اسلام کے گوشے گوشے سے پچاس لاکھ سے زائد افراد کا بے مثال مجمع، اور اس میں نہ صرف برصغیر بلکہ دنیائے اسلام کے اساطین واراکین ِ سلطنت ،علماء، مشاہیر اور عامۃ الناس کا دار العلوم دیوبند کے وقار وجلال اور اس کی عظمت وسطوت اور عروج وکمالؒ کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ‘‘ ہو۔ وغیرہ وغیرہ یہ سب آپ کے اسی حکیمانہ اور پرتاثیر اندازِ تعارف کے عظیم الشان ،بے مثال اور تاریخی نتائج ہیں ۔(۵) وعظ ونصیحت اور تقریر وخطابت حضرت حکیم الاسلامؒ کی حیات کے اہم ترین عناصر میں نہایت پر ُکشش پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ایک بے مثال واعظ اور خطیب تھے، حقیقت یہ ہے کہ وعظ وتقریر میں علماء اور واعظین کی صف میں آپ کا کوئی مثیل اور ثانی نہ تھا ، آپ بلاشبہ امتیازی مقام کے حامل تھے۔اس میں آپ کو ایسا ملکہ ٔ راسخہ حاصل تھا جسے موہبت الٰہی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔