حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
یادِ ماضی مولانا خالد حسین بلیاویؒ سابق استاذ دارالعلوم دیوبند ہزاروں حمد و سپاس اس خالق بیچون کو کہ جس نے عالم کو بنایا اور اس میں بنی آدم کو رتبۂ اعلیٰ عطافرمایا اور سوہزاروں رحمتیں اُن کی جان پاک پر کہ آپ بچے اور اوروں کو بچایا اور بہکے ہوؤں کو سیدھا راستہ دکھایا اب یہ چند سطور پیش خدمت ہیں او رپیش کنندہ ہے ایک ناچیز مسمی خالدحسین بلیاوی عفا اللہ عنہ اوران سطور میں کچھ یادیں ہیں جو عظیم ترین شخصیت حضرت اقدس مہتمم دارالعلوم دیوبند حکیم الاسلام مولانا طیب صاحب ؒ برّد اللہ مضجعہ کی ذات بابرکات سے متعلق ہیں یہ ناچیز الہ آباد میں مدرسہ وصیۃ العلوم میں زیرتعلیم تھا مدرسہ کے قریب ہرسال جلسہ ہوتا تھا اسی درمیان میں حضرت حکیم الاسلامؒ بھی تشریف لائے او ربندہ نے پہلی مرتبہ حضرت کو دیکھا اور سنا ایسا محسوس ہوا کہ یوسف گم گشتہ سامنے ہے اور ’’إن ہٰذا من البیان لسحرا‘‘ کا جادو مجمع کو مسحور کئے ہوئے ہے (کنتم خیرامۃ) کی آیت مبارکہ موضوع سخن ہے اور خیریت کے تمام پہلو زیر نظر ہیں اور بلبل شیریں بیان کی شیرینی نے ہر صاحب سماع کو حلاوت العسل المصفی سے ہمکنار کیا ہوا ہے اور اس بندہ نے اس تقریر سے جو سمجھا وہ یہ تھا کہ امت تین اجزاء سے وجود پذیر ہوتی ہے: (۱)شخصیت سے(۲)کتاب سے (۳) اور مرکز سے اور اس امت کو جو شخصیت ملی وہ خیرالانبیاء ہیں جو کتاب ملی وہ خیرالکتاب ہے اور جو مرکز ملاوہ کعبہ خیرالمراکز ہے پھر حضرت نے ہر ایک دعویٰ کو کس طر ح مدلل کیا بس اسے تو بحر بیکراں کہئے یہ ہے بندہ کا حضرت سے لقاء اول اس کے بعد بندہ دارالعلوم دیوبند میں حاضر ہوا ہدایہ آخرین اور دوسری کتابیں زیر درس رہیں اور ساتھ ساتھ حجۃ اللہ البالغہ کے درس میں حضرت سے استفادہ رہا اور خوب رہا ایک موقع پر حضرت نے درس میں فرمایا لغات میں سب سے زیادہ فطرت کے