حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
وسیع باب ملے گا۔ حضرت کے خطبات، مواعظ و مقالات کا ذخیرہ بھی یہ باور کرائے گا کہ عقیدہ ختم نبوت کے خلاف اٹھنے والے مختلف طرح کے فتنوں کا مقابلہ کرنا حضرت حکیم الاسلام کے کارناموں میں سے ایک اہم کارنامہ ہے۔قادیانی تحریک اور اس کے تعاقب کی تیاری انیسویں صدی کے آغاز میں ضلع گورداسپور، پنجاب میں واقع ’’قادیان‘‘ نامی ایک گائوں سے قادیانیت کا فتنہ رونما ہوا۔ چوں کہ اس فتنہ کو وقت کی انگریزی سرکار کی بھرپور پشت پناہی حاصل تھی اور شاید قدرت کو ہم جیسے کمزور ایمان والوں کے ایمان کی آزمائش بھی مقصود تھی کہ قادیانی تحریک کی فتنے پروری میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا رہا لیکن تاریخ شاہد ہے کہ علماء اسلام بالخصوص علمائِ دارالعلوم دیوبند نے قادیانیت کو اپنے زمانہ کا سب سے خطرناک فتنہ قرار دیتے ہوئے اس کے تردید و تعاقب میں نہ صرف علمی اور تصنیفی جدو جہد فرمائی بلکہ فتنہ کو کچلنے کے لئے سربکف میدان عمل میں اتر آئے۔ مدعی نبوت مرزا غلام احمد قادیانی کی پیدائش ۱۸۴۹ء میں اور ۱۸۸۰ء سے اس نے بتدریج اپنے ہاتھ پائوں پھیلانے شروع کئے اور تقریباً ایک دھائی گذرتے گذرتے بلّی تھیلے سے باہر آگئی۔ ۱۸۹۰ء سے عوام و خواص سبھی نے قادیانیت کی زہرناکیوں اور خطرناکیوں کو خوب بھانپ لیا۔ یہ وہ دور ہے کہ ۱۸۷۹ء میں حضرت حکیم الاسلام کے جد امجد حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوتا ہے لیکن مشیّت خداوندی دیکھئے کہ انتقال سے قبل تحفظ ختم نبوت اور آئندہ زمانہ میں پیدا ہونے والے جھوٹے مدعیان نبوت کا ہمہ جہت دروازہ بند کرکے تحفظ ختم نبوت کے میدان میں آپ نے وہ گراں قدر خدمات انجام دیں کہ آج بھی علم و فضل کی دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ شان ختم نبوت کو بلند و بالا مقام دینے کے لئے جگہ، زمانہ اور مقام و مرتبہ تینوں اعتبار سے حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف ’’تحذیر الناس‘‘ میں عقیدہ ختم نبوت کی گرہ کشائی اور اس کی وہ توضیح و تشریح فرمائی ہے کہ جس نے عقیدہ ختم نبوت کو ہمہ جہت حصار اور مضبوط تحفظ فراہم کیا۔ اگر بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو فتنۂ قادیانیت کے ظہور سے پہلے ہی حضرت نانوتویؒ کا تحفظ ختم نبوت کے میدان میں یہ پہلا اور سنہرے حرفوں سے لکھا جانے والا کارنامہ ہے۔ قادیانی فتنہ ۱۹۰۱ء میں جب اپنے شباب کو پہنچا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت نانوتویؒ کی جسمانی یا روحانی اولادیں تحفظ ختم نبوت کے میدان میں کسی سے پیچھے رہتیں ۔ چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرات علماء دیوبند