حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
وتذکیر و اصلاح وغیرہ کے عنوانات سے یاد کی جاسکتی ہے مگر عرف شریعت کے لحاظ سے اسے تبلیغ نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ عرف شریعت میں تبلیغ درحقیقت اسلام پہنچانے اور اسلام برادری کے وسیع کرنے کو کہا گیا ہے۔ اسی لئے تبلیغ اپنے حقیقی معنی میں (غیر مسلموں کو) اسلام کا پیغام پہنچانے کا نام ہے۔(۸) اسی طرح ایک اور غلط فہمی ذہنوں میں رچی بسی ہوئی ہے کہ کسی مسلمان یا کسی انسان کو نیکی کی کوئی بات ہدایت و خیر کا کوئی وظیفہ بتا دیا جائے یہ بھی تبلیغ دین اور دعوت دین ہے۔ چنانچہ اسی غلط فہمی کی بناء پر غیر مسلموں کو اصل دعوت نہ دے کر محض کچھ معروضات خیرخوبی کی باتیں اور اصلاح معاشرہ کی نوعیت کی احادیث و آیات سنائی جاتی ہیں پھر اس کا موازنہ غیر مسلموں کی مذہبی کتابوں سے بھی کیا جاتا ہے نتیجتاً ہر کوئی اپنے مذہب کو خیر و صلاح کا مذہب قرار دے کر مطمئن ہوجاتا ہے۔ افسوس اس عجیب و غریب طریقہ کو بھی دعوت و تبلیغ کا نام دیا جاتا ہے۔ حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ اس سلسلے میں رقم طراز ہیں : ’’پھر اسی سبیل رب کے کلمہ سے فعل دعوت کی نوعیت بھی خود ہی متعین اور مشخص ہوجاتی ہے کہ شریعت پہنچانے اور تبلیغ دین کرنے کا نام فعل دعوت ہے۔ مطلقاً کسی نہ کسی بات کے پہنچادینے یا کسی نہ کسی معقول یا بھلی بات کے کہہ دینے کا نام دعوت نہیں ہے ورنہ اُدْعُ کے بعد سبیل رب کا کلمہ نہ لایا جاتا بلکہ اُدع پر قناعت کرلی جاتی تو اس میں عموم رہتا کہ جو چاہوپہنچا دو وہی فعل دعوت اور اُدْعُ کی تکمیل ہوگئی مگر جب اس فعل کو سَبِیْلِ رَبِّ سے مقید کر دیا گیا تو واضح ہوگیا کہ محض کسی نہ کسی چیز کے پہنچانے ہی کے فعل کو فعلِ دعوت کہا جائے گا۔‘‘ (۹) حکیم الاسلامؒ کے مذکورہ بالا دو غلط فہمیوں کے ازالہ میں اجمالاً ایک اور حقیقت واضح ہوتی ہے کہ دینِ دعوت اور دین کی تبلیغ میں دعوت و تبلیغ دین کی ہونی چاہئے جس کو آپ نے شریعت اور سبیل رب کی معنویت سے واضح کیا ہے۔ لہٰذا ان غلط فہمیوں کا ازالہ کے لئے دین کے مفہوم کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔دین کا مفہوم دین کے معنی عربی زبان میں اس طرح ہیں و کلمۃ الدین معناھا (۱)القھر والغلبۃ (۲)التعبد والطاعۃ (۳)الشریعۃ ای الحدود والقوانین التی تتبع (۴)المحاسبہ والجزاء والاقارب (۱۰)