حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
۲-دعوت کی خوبی یہ ہے کہ وہ مدعو اور مخاطب کے مناسب حال ہو۔ ۳-داعی کی خوبی یہ ہے کہ اس کا علمی اور اخلاقی معیار بلند ہو۔ ۴-مدعو کی خوبی یہ ہے کہ اس میں قبول کا جذبہ موج زن ہو۔ انہی چہار گانہ مقاصد کی تفصیلات پورے مالہٗ و ماعلیہ کے ساتھ اس آیت دعوت میں بیان فرمائی گئی۔‘‘(۴)مدعو الیہ یعنی دعوتی پروگرام مدعو الیہ کی وضاحت کرتے ہوئے مصنف نے یہ ثابت کیا کہ قابل تبلیغ چیز صرف علمِ شرعی ہے جو اللہ کی جانب سے نازل کردہ ہے اور جسے آیت کریمہ میں ’’سبیل رب‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔اسے خالص شکل میں پیش کرنا لازم ہے۔ اختراعات و محدثات اوربدعات کی تبلیغ جائز نہیں ہے۔ اسی طرح تبلیغ میں یک گونہ سادگی اور بے تکلفی ہونی ہے چاہئے اور تکلف کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ قُلْ مَا اَسْئَلُکمْ عَلَیہِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْن اِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٌ لِّلْعَالَمِیْنَ۔ ترجمہ : اے رسول آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس قرآن کی تبلیغ پر نہ کچھ معاوضہ چاہتا ہوں اور نہ بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں ۔ یہ (قرآن) تو سارے عالم کے لئے ایک ذکر ہے۔ مصنف نے دعوتی نقطہ نظر سے دیگر مذاہب کا جائزہ لیا اور یہ ثابت کیاہے کہ وہ تبلیغی مذاہب نہیں ہو سکتے۔ صرف اسلام ہی تبلیغی مذہب ہے کیوں کہ وہ محفوظ ہے اور آقاکی تعلیمات پر مشتمل ہے۔ اسلامی دعوت عالمیت کی شان رکھتی ہے۔انواع دعوت آیت دعوت کی روشنی میں مصنف نے انواع دعوت کی تعیین کی ہے اور حکمت،موعظت اور مجادلت پر بڑی عالمانہ گفتگو فرمائی ہے پھر حکمت علمی و حکمت عملی، موعظت علمی و موعظت عملی اور مجادلت علمی و مجادلت عملی کی تشریح مثالوں کے ساتھ کی ہے پھر دعوت میں مخاطب کے مزاج و ذہنیت کی رعایت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’حق تعالیٰ کو محض تبلیغ ہی مطلوب نہیں بلکہ اس کے ساتھ مخاطبوں کے احوال اور طبائع کی رعایت بھی منظور ہے جس کا منشا شفقت ہے۔‘‘ (۵)