حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ اور ان سے قبل کے علماء کرام نے دعوت دین کی اہمیت اور اس سے غفلت کے نتائج سے واقف ہیں ۔ بانی تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس صاحبؒ فرماتے ہیں کہ ’’اگر تم داعی نہیں بنوگے تو دوسروں کے مدعو بن جائوگے۔‘‘ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ آیت کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَائً فَلاَ تَتَّخِِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَائَ‘‘ مسلمانوں کو تو ان سے ملتے ہوئے اسی کا خیال نہیں ہوتا کہ ان کو مسلمان بنائیں اور وہ ہر وقت دل میں یہی خیال رکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو کافر بنائیں ۔ (۷) مولانا ابوالحسن علی ندویؒ رقم طراز ہیں : ’’دعوت دین کی اہمیت کے باوجود امت مسلمہ کی اکثریت اس سے غافل نظر آتی ہے جس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے متعدد ملکوں اور علاقوں سے اپنا وقار و اعتماد، حکومت و اقتدار کھونا پڑا اور جس کا خمیازہ وہ آج بھی بھگت رہی ہے۔ خصوصاً غیر مسلموں میں دعوتی کام نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ غیر مسلم دولت اسلام سے بے بہرہ اور صحیح طرز زندگی سے ناآشنا ہیں بلکہ وہ اپنے اخلاق سوز و ایمان دشمن نظریات وتحریکات اور باطل نظام حیات کو امت مسلمہ اور خیر امت کے سروں پر تھوپ رہے ہیں ۔ مجموعی طور پر سارا عالم اسلام دین حق کا داعی بننے کے بجائے باطل افکار و نظریات کا مدعو بلکہ طفیلی بنا ہوا ہے۔‘‘دعوت دین کے متعلق غلط فہمیاں دعوت دین ’’تبلیغ اسلام اور To Preachs of Islam کے متعلق ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ تبلیغ اسلام اور دعوت دین دراصل مسلمانوں کی اصلاح کردینے ان کو عبادت کے رنگ میں رنگ دینے کا نام ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پہلے مسلمانوں پر تبلیغ کی جائے۔ غیر مسلم انہیں دیکھ کر مسلمان ہوجائیں گے۔‘‘ دعوت و تبلیغ کا یہ غلط مفہوم اور اس کے لئے بھونڈی دلیل دراصل ایک خطرناک غلطی ہے۔ حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ اس غلط فہمی کی سخت مخالفت کرتے ہیں ۔ آپ لکھتے ہیں : ’’تبلیغ اسلام کے معنی پشتینی مسلمانوں کو عباداتی رنگ کے کچھ احکام پہنچادینے اور انہیں وابستہ کردینے کے لئے نہیں کہ جس کے بعد یہ سمجھ لیا جائے کہ فریضۂ تبلیغ ادا ہوگیا یا ارباب تبلیغ فرائضِ دعوت سے سبکدوش ہوگئے۔ مجھے اسی انداز کی کسی دعوت خاص کی ضرورت اور افادیت سے اگر چہ انکار نہیں لیکن اسے فریضۂ تبلیغ سے سبکدوشی سمجھ لیا جانا قرآن کے اصول تبلیغ کی روشنی میں یقینا صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا۔ یہ جزو تبلیغ