حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حضرت شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ امام شافعیؒ سے پہلے مختلف نصوص میں مطابقت پیدا کرنے کے لیے قواعد منضبط نہیں تھے، جس کے باعث فقہاکے اجتہادات غلطیوں سے محفوظ نہ رہ سکتے تھے۔ اس لیے امام شافعیؒ نے پہلے یہ اصول وقواعد وضع کیے اور ان کو باقاعدہ ایک کتاب کی شکل میں مرتب کیا، اصول فقہ کی یہ پہلی کتاب ہے جو عالم وجودمیں آئی۔‘‘ امام شافعیؒ کے اس نظریے سے خواہ دیگر ائمہ فقہ نے اتفاق نہ کیا ہو ، لیکن اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ان کا مقصد فقہ کے باب میں نظر وفکر کے اُس اعتدال کو مزید تقویت پہنچانا تھا جو کابراً عن کابرٍ ان تک پہنچاتھا۔ بہرحال ائمہ فقہ نے جہاں امت کی فکری تاریخ کو ایک نیا رخ عطا کیا وہیں اعتدال کا دامن بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اس طرح آیندہ نسلوں کو انھوں نے یہ پیغام دیا کہ کوئی بھی نظریہ وصف اعتدال کے بغیر بار آور نہیں ہوسکتا۔شاہ ولی اللہ ؒاور اعتدال یقینا تسلسل اعتدال کا یہ تذکرہ امام بخاریؒ، امام غزالیؒ اور امام رازی ؒجیسے مفکرین ومصلحین کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے؛ لیکن اس حقیقت کے پیش نظر کہ پوری امت کی فکری تاریخ میں جو حیثیت ائمہ اربعہ کو حاصل ہے، وہی حیثیت بر صغیر کی اسلامی تاریخ میں اپنے وقت کے مجدد اور عظیم مصلح ،مسندالہند شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کو حاصل ہے ، ہم نے ائمہ فقہ کے تذکرے کے بعد شاہ صاحب ؒکاذکر مناسب سمجھا ۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے جو تجدیدی کارنامہ انجام دیاہے اس کو ’’فکر ونظر کے ا عتدال‘‘ کے علاوہ کوئی دوسرا عنوان نہیں دیا جاسکتا۔ آپ نے شریعت وطریقت، فقہ واجتہاد اور احسان وتصوف کے میدانوں میں اپنی بیش بہا تصانیف کے ذریعہ جو نقطۂ اعتدال پیش کیا، وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے آنے والی نسلوں کے سامنے نقش راہ بن گیا۔ مولانا مناظراحسن گیلانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’ اس میں شک نہیں کہ پچھلی صدیوں میں بعض حالات ایسے پیش آئے خصوصاً اسلام کے اصل شرچشموں یعنی قرآن وحدیث کی تعلیم سے اسلامی مدارس بہت حد تک بیگانے ہوتے چلے گئے، بتدریج یہ اختلافات بہت غلط صورت اختیار کرتے چلے گئے خصوصاً ماوراء النہر (ترکستان وخراسان) کے حنفی فقہا کا غلو اس باب میں آہستہ آہستہ بہت آگے بڑھ گیا تھا اور ہندوستان میں وطن بنانے کے لیے اسلام جس راستے