حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
دور صحابہ اور اعتدال نظر وفکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی اعتدال ومیانہ روی سے روگردانی نہیں کی انھوں نے ہمیشہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے درمیانی راہ پر چلنے کو ترجیح دی۔ انھوں نے فکری اعتدال کی ایسی ایسی مثالیں پیش کی ہیں ، جو صحابۂ کرام کے مقدس نفوس کی طرح خود بھی قدُوہ اورلائق اتباع بن گئیں ۔ کبھی وہ اعتدال وتوازن قائم رکھتے ہوئے اپنے ذاتی اجتہادات کو حدیث نبوی کے سامنے یکسر مسترد کردیتے تو کبھی کسی کی بیان کردہ روایت کو کسی علت کی بناء پر ناقابل عمل قرار دیتے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اپنی معرکۃ الآرا ء کتاب ’’الانصاف في بیان أسباب الاختلاف‘‘ میں حضرات صحابہ ؓ کے طرز عمل کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’ اگر ان کو کسی مسئلے کے بارے میں حکم شرعی معلوم نہ ہوتا تو دوسرے صحابہ سے دریافت فرماتے کہ تم میں سے کسی نے اس امر کے متعلق پیغمبرؑ کا کوئی فرمان سناہے؟ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سامنے جب دادی کی وراثت کا مسئلہ پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ’’میں نے اس کے حصے کے بارے میں رسول اللہؐ سے کوئی ارشاد نہیں سنا ہے اس لیے میں اس کے متعلق اوروں سے پوچھتا ہوں ’‘‘جب نماز ظہر آپؓ نے ادا کرلی تو لوگوں سے پوچھا کہ ’’ کیا تم میں سے کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دادی کے حق میں وراثت کے بارے میں کچھ فرماتے سنا ہے؟‘‘ مغیرہ ابن شعبہؓ نے فرمایا کہ ’’ہاں میں نے سناہے ‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دادی کو میت کے مال کا چھٹا حصہ دیاہے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے دریافت فرمایا کہ ’’ یہ بات تمہارے سوا کسی اور کو بھی معلوم ہے‘‘ محمد بن مسلمہ ؓ نے جواب دیا کہ ’’ مغیرہ صحیح کہتے ہیں ‘‘ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے اس عورت کو چھٹا حصہ دینے کا فیصلہ فرمایا‘‘۔ وہیں دوسری طرف ہمیں ایسی بھی مثال ملتی ہے کہ صحابہ نے روایت پر عمل کرنے کے بجائے اجتہاد کو ترجیح دی اور یوں منشائے نبوی کو پاگئے۔ حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہٗ تحریر فرماتے ہیں : ’’ اس کی مثال فاطمہ بنت قیس کی اس حدیث سے ملتی ہے جس کو اصحاب اصول نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے کہ فاطمہؓ نے حضرت عمرؓ کے روبرو آکر عرض کیا کہ ’’ مجھ کو تین طلاقیں دی گئی تھیں ، آپ Bنہ تومجھ کو زمانۂ عدت کا نفقہ دلایا اور نہ مکان ‘‘ حضرت عمرؓ نے ان کی گواہی ماننے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ ہم ایک عورت کے قول کی بناپر کتاب الٰہی کو نہیں چھوڑ سکتے ، جس کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہے یا غلط۔ فاطمہ بنت قیسؓ کے قول کو سن کر حضرت عائشہؓ نے بھی فرمایا کہ ’’فاطمہ کو کیا ہوگیا کہ وہ اللہ کا خوف نہیں کرتی‘‘۔