حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ کا اسلوبِ نثر جناب شریف مبارک پوری حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ ایک عالم دین، مفکرِ اسلام، حافظِ قرآن، مصنف، شاعر، بلند پایہ خطیب اور اردو زبان و ادب کے رمز شناس تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مشکل اور پیچیدہ مسائل کو انتہائی آسان پیرایہ میں بیان کردیتے ہیں ۔ نمونہ کے طور پر ان کا ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے۔ ’’آنحضرت Bکا سیرت و اخلاق یہ قرآن ہے۔ جو اس میں لکھا ہوا ہے وہی آپ کی ذات میں عمل اور سیرت و کردار کی صورت میں موجود ہے۔ اس قرآن کی اور بالفاظ دیگر سیرت نبوی کی سند و روایت کا تو یہ مقام ہے کہ دو چار، دس پانچ راویوں کے واسطے سے نہیں بلکہ پیغمبر سے لے کر آج کے دور تک جنہیں ایک ایک زیر زبر تک محفوظ پھر اس کا ایک ایک کلمہ اور ایک ایک حرف گنا ہوا اور شمار میں آیا ہوا منضبط ہے۔ حتیٰ کہ اس کی روایت کے ساتھ اس کی درایت طرز ادا، لب و لہجہ، طرز کتابت اور رسم الخط تک کے تحفظ کے لئے ہر دور میں ہزاروں ہزار مبصر افراد کی جماعتیں اور گروہ سرگرم عمل رہتے آرہے ہیں ۔ پھر اس قول و فعل رسول کے لئے خود صاحبِ رسالت کا اپنا کلام جسے حدیث کہتے ہیں ۔ اس حد تک منضبط محفوظ اور اس درجہ اس کی روایت مسلسل بیچ میں انقطاع کا نشان تک نہیں بلکہ اس کے لاکھوں راویوں کی سوانح عمریاں محفوظ او ر اوراقِ تاریخ میں منضبط۔ حتیٰ کہ اس کے فن کی روایت کے وہ اصول تک بھی مرتب شدہ موجود کہ اس کی تاریخ ہی ایک مستقل فن بن گئی‘‘۔ (۱) ان کی تحریروں میں ان کے اسلوب بیان کی جھلک اور ان کی شخصیت کا انعکاس صاف نظر آتا ہے جس پر فارسی کا یہ محاورہ موزوں معلوم ہوتا ہے کہ ’’از کوزہ ہماں ترا کہ درونی است‘‘ اور مولانا نے بھی اپنے خطبات میں اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے۔جس سے ان باتوں کی تائید ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ۔