حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
اسلامی تاریخ و ثقافت اور نظام خیر القرون کی تفصیلات و حقائق کو مدلل اور مستند طریقہ سے واضح کیا ہے یہی مدلل اور مستند طریقہ فکر ولی اللّٰہی ہے جس کے ترجمان حضرت حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحبؒ تھے، یہی ترجمانی جملہ اکابر دارالعلوم کا شعار تھا، جس کے رنگ و انداز الگ الگ تھے اور حضرت تمام رنگوں کے جامع تھے، شیخ الہند مولانا محمود حسن کے مرید باصفا اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ ارشد تھے، اسی طرح آپ حضرت مولانا الحافظ محمد احمدؒ کے بھی خلیفہ تھے، جو قطب الارشاد امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے خلیفہ ارشد تھے، پس آپ کی خلافت دو آتشہ تھی، ایک میں بالواسطہ حضرت امام الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی نسبت خاصہ اورمعرفت کاملہ منتقل ہوئی اور دوسری خلافت بالواسطہ حضرت قطب الارشاد مولانا گنگوہیؒ کے مقام احسان و استقامت سے مستنیر تھی۔ علوم و تحقیقات میں امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کے تلمیذ ِ رشید اور درسیات میں امام المنطق و الحدیث حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ کے مایہ نازشاگرد تھے، دارالعلوم کے نظم و نسق اور اہتمام کی ذمہ داریوں میں فخر الاسلام حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی ؒکی تربیت و سرپرستی اور رہنمائی حاصل تھی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپؒ کے والد نے چالیس برس تک اہتمام کی خدمت انجام دی، تو آپؒ نے تقریباً چھپن برس تک مسلسل اپنے فرائض منصبی کو انجام دیا۔ اور تقریر و خطابت میں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیراحمد عثمانی ؒکی رہنمائی کا شرف حاصل تھا، اکابر دارالعلوم میں حضرت علامہ عثمانیؒ کے طرز و انداز میں آپ ہی کو خطابت و تقریر کا شرف حاصل تھا اور یہ طرز و انداز بالکل منفرد اور مجتہدانہ تھا، سامعین پر سکوت طاری ہو جاتا اور قلوب کے اندر سمع و طاعت کا جذبہ بیدار ہوتا،کڑے کڑے مخالفین اور اکابر دارالعلوم کے اعداء و منکرین بھی آپؒ کے خطاب سے محظوظ ہوتے۔ آپ کے خطاب میں شیخ جیلانی ؒ کے ناصحانہ وقار اور ابن جوزی کے خطیبانہ کردار کی جواہر ریزی ہوتی اور مجدد سرہندی کی تجدید و اصلاح اور ان کی دعوت و عزیمت کی چاشنی ہوتی اور شاہ ولی اللہ کے افکار و اقدار کی روشنی ہوتی۔ آپ کے اندر سب سے بڑا وصف تواضع وانکسار تھا جو حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی رفاقت صادقہ کے اثرات تھے اکابر کا احترام اور اصاغر سے محبت اور ان کی حوصلہ افزائی پر آپ کا خصوصی رنگ تھا۔حضرت حکیم الاسلامؒ اسلاف کی آخری نشانی حضرت حکیم الاسلامؒ کی تعلیم و تربیت اور ذہنی و فکری نشوو نما ایسی مقدس ہستیوں کے زیر سایہ ہوئیں جو اخیار امت اور شریعت وطریقت کے حقیقۂ جامع اور سلف صالحین کے سچے پیرو تھے اور علم و عمل میں