حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
تھی، ایسا معلوم ہوتا کہ منھ سے ایک سانچے میں ڈھلے ہوئے موتی جھڑ رہے ہیں ، ان کی تقریروں میں سمندر کی طغیانی کے بجائے ایک باوقار دریا کا ٹھہرائو تھا جو انسان کو زیرو زبر کرنے کے بجائے دھیرے دھیرے بہا کر لے جاتا تھا‘‘۔(۴) برِّصغیر کے ہر گوشے میں حضرت حکیم الاسلامؒ کی آواز پہونچی اور اس سے نہ جانے کتنی زندگیوں میں انقلاب آیا، مخالف فرقوں کا رد کبھی ان کا موضوع نہ رہا لیکن بے شمار گم گشتگانِ راہ کو ان کے مواعظ سے راہِ ہدایت ملی، تذکرہ نویسوں کے بقول یہی رنگ علامہ ابن الجوزی کا تھا جن کے سادہ خطاب و وعظ کی اثر انگیزی کا یہ عالم تھا کہ ایک مجلس میں سینکڑوں لوگ تائب ہوجاتے تھے، کچھ یہی رنگ حضرت حکیم الاسلامؒ کے مواعظ و خطبات کا بھی تھا۔ ایک تذکرہ نگار لکھتا ہے : ’’ان سے لاکھوں افراد نے ایمان باللہ کی تب و تاب اور سنت رسول Bکی روشنی حاصل کی، وہ یورپ، افریقہ اور امریکہ کے قریب قریب ہر ہر گوشے میں گئے اور ہر جگہ دین قیم کی شمعیں فروزاں کر آئے، وہ جہاں بھی گئے ان کی تقریریں الحاد و باطل پر بجلیاں گراتی اور ایمان و یقین کے گلاب اگاتی چلی گئیں ؎ جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں (۵) شہید اسلام مولانا محمد یوسف لدھیانوی فرماتے ہیں : ’’حق تعالیٰ شانہٗ نے حضرت حکیم الاسلام مولانا محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کو خطابت کا خاص ذوق، زبان و بیان کا خاص انداز اور افہام و تفہیم کا خاص ملکہ عطا فرمایا تھا : اردو، فارسی اور عربی تینوں زبانوں میں بلا تکلف خطاب فرماتے تھے، زبان ایسی صاف اور شستہ، جملے ایسے نپے تلے کہ گویا سامنے کتاب رکھی ہے اور اس کی عبارت پڑھ کر سنا رہے ہیں ، حقائق و واقعات کی ایسی منظر کشی فرماتے تھے گویا واقعہ متمثل ہو کر سامعین کے سامنے کھڑا ہے، شریعت کے اسرار و حکم اور طریقت و حقیقت کے رموز و لطائف اس طرح بیان فرماتے تھے گویا دریائے علم و معرفت وہبیہ کا طوفان امڈ آیا ہے۔ (۶) حضرت مولانا محمد منظور نعمانی کے بقول:خطیبانہ امتیازات یوں تو حکیم الاسلامؒ کے خطیبانہ امتیازات بے شمار ہیں مگر