حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
اس تحریر میں آپ کو نہیں ملے گا اور اگر کہیں ایسا بھی ہوگا تو وہ آپ ہی کے دعووں پر بطور فرض و الزام کے ہوگا۔ اس کتاب میں عیسائی پادری نے اسلام کے خلاف چار سوالات اٹھائے ہیں ، ان میں ایک یہ ہے کہ اسلام کے پاس اخلاقی تعلیمات ہیں ہی نہیں ، دوسرے رسول اللہBکے حضرت زینبؓ سے نکاح کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے، تیسرے حضرت معاذرضی اللہ عنہ کی اس روایت کو پیش کیا گیا ہے کہ جس نے ’’لا الٰہ الاّ اللہ‘‘ کہا وہ جنت میں داخل ہوگا، گو وہ چوری اور زنا کا مرتکب ہو، چوتھے ان کا دعویٰ ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بائبل کا قرآن پر تفوق ظاہر کرتے ہوئے بائبل کے بعض احکام کا ذکر کیا ہے، جیسے چوری مت کر، زنا مت کر، خون مت کر آپؒ نے ان سوالات کے شافی و کافی جوابات دئیے ہیں ، سب سے پہلے آپ نے اخلاق و افعال کے فرق پر روشنی ڈالی ہے، آپؒ نے لکھا ہے کہ اخلاق دراصل قلب کے اندر پیدا ہونے والے مادے صبر و شکر،سخاوت و شجاعت، مروت و عجز، حیا اور غنا وغیرہ سے عبارت ہیں ، افعال ان کے آثار ہیں گویا اخلاق جڑ ہیں اور اعمال صالحہ ان سے پھوٹنے والی شاخیں ہیں ، اس پس منظر میں آپؒ نے بتایا ہے کہ قرآن نے اعمال صالحہ کی تشریح کے ساتھ ساتھ اخلاقی صلاحیتوں کے پروان چڑھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ پھر آپؒ نے اسلام کے نظام اخلاق کی وسعت کو بتانے کے لئے اللہ تعالیٰ کے ننانوے اسمائے حسنیٰ کو قرآن و حدیث سے نقل کیا ہے او ران کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہی اسمائے حسنیٰ اخلاق کی بنیاد ہیں کیوں کہ رسول اللہB نے ارشاد فرمایا: تخلقوا باخلاق اللّہ، چنانچہ فرماتے ہیں : یہی حق تعالیٰ کے وہ اصول اخلاق، رحم و کرم،حلم و صبر، عفو و درگذر، بڑائی و عظمت قدرت و قوت، محبت، عدل و انصاف، علیمی و خبیری، وسعت و احاطہ، یکتائی، غنا، نورانیت، ہدایت، بزرگی، حفظ و نگہبانی، نفع و ضرر رسانی کی طاقت انعام و انتقام، سلب و عطا،ثبات و استقلال، مصدریت کمالات، تقدس و پاکی، حکومت و ملوکیت، لطافت و ستھرائی، علو شان، اعزاز و تذلیل، وغیرہ ہیں ، جن کی اصولی تعداد ننانوے تک پہنچتی ہے، جنہیں حدیث نے ’’اسماء الٰہیہ‘‘ کے نام سے تعبیر کیا ہے اور قرآن نے’’اسماء حسنیٰ‘‘ کے لقب سے یاد کیا ہے، یہی وہ پاکیزہ اخلاق خداوندی ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لئے نبی کریم B نے امت کو امر فرمایا کہ : تخلقوا باخلاق اللہ۔ اور انہی اخلاق الٰہیہ سے مخلوق کی اخلاقی تکمیل کے لئے نبی کریم B مبعوث ہوئے، چنانچہ خود ہی حضور B نے ارشاد فرمایا :