حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
مقاماتِ مقدسہ تصنیف حضرت حکیم الاسلام ؒ: ایک تاریخی جائزہ پروفیسر محمد عزیز الدین حسین جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دھلی تمام مذاہب سے متعلق لوگوں کو اپنے مذہب کے مقامات مقدسہ سے دلچسپی ہوتی ہے۔ وہی دلچسپی مولانا محمد طیب صاحبؒ کو تھی جب کہ مولانا محمد اسلم صاحب کے بیان سے ظاہر ہے ’’۱۷؍جولائی ۱۹۸۳ء کو صبح ساڑھے آٹھ بجے احقر کے ساتھ آخری کچھ مزید تفصیلات ذہن میں آرہی ہیں اس لئے وہ مسودہ ذرا مجھے لادو۔ مجھے تامل ہوا کیوں کہ ضعف و نقاہت اس حد تک پہنچ چکا تھا کہ خود سے لیٹنا بیٹھنا بھی ممکن نہیں رہا تھا۔ میں نے اپنے تامل کا اظہار بھی کر دیا مگر فرمایا نہیں ایسے کاموں سے کوئی تعب نہیں ہوگا، مسودہ اور قلم مجھے لادو مگر گیارہ بج کر دس منٹ پر حضرت حکیم الاسلامؒ جان، جان آفرین کے سپرد کرچکے تھے‘‘۔(۱) مقامات مقدسہ سے دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ زندگی کے آخری لمحات میں مقامات مقدسہ ذہن و فکر کا حصہ تھے۔ تیرہویں صدی عیسوی میں ہندوستان میں مسلمانوں کے قیام کے بعد علماء و مشائخ کی دلچسپی کا مرکز مقامات مقدسہ رہے اور یہ روایت رہی کہ علماء و مشائخ مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے جاتے۔ بعض نے اپنے سفرنامے بھی لکھے۔ مشائخ ہند میں حضرت سید مخدوم جہانیانِ جہاں گشت سید جلال الدین کئی مرتبہ حج و زیارت مقامات مقدسہ کے لئے گئے اور اپنا ’’سفرنامہ‘‘ بھی لکھا جس میں مکہ، مدینہ، شام اور کربلا کا تذکرہ موجود ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے دل میں اسلام کے مقاماتِ مقدسہ کی عظمت تو تھی ہی لیکن انہوں نے ملتان کو ایک مرکز بنایا اور اس کا نام قبتہ الاسلام رکھا۔ دہلی کو انہوں نے حضرت دہلی کا نام دیا اور جو جامع مسجد مہرولی