حیات طیب رحمہ اللہ تعالی جلد 2 |
یات طیب |
|
عطا کی۔ اسی طرح اللہ پاک کی رحمتِ واسعہ اور رسول اللہؐ کی محنت شاقہ کا ثمرہ ہے کہ اللہ کا دین آج ہم تک پہنچ کا ہے۔ فلھٰذا اَشکرواللّٰہ و صلّوا علیٰ رسولہ الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔حکیم الاسلامؒ کا اجمالی تعارف چودھویں صدی ہجری میں عالم اسلام کے افق پر جو عظیم المرتبت شخصیات منصۂ شہود آئی ہیں انہیں میں سے ایک مایۂ ناز، موثر اور عہد آفریں شخصیت کا نام نامی مولانا محمدطیب صاحبؒ ہے جو خلقِ خدا میں حکیم الاسلام کے لقب سے ملقب ہوئے۔ یہ وہ عظیم شخصیت ہے جس کے تذکرہ کے بغیر چودھوہیں صدی کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔ آپ علم و فضل کے بحر بیکراں تھے۔ بیانِ حق و صدق میں تیغ برّاں تھے۔ آپ ورع و تقویٰ کے پیکر، امراض نفس کے حکیم حاذق، علوم جدید سے واقف، محی السنۃ اور ماحی ضلالت و بدعت تھے۔ حکیم الاسلامؒ ان عظیم شخصیتوں میں سے ایک ہیں جو غلبۂ دین اور اشاعت اسلام کے لئے بے قرار رہتے ہیں ۔ آپ نے حریت افکار اور دمکتے ہوئے کردار کے ذریعہ علم و عمل کا ایسا حسین و جمیل عہد تعمیرکیا، جس کی تابندہ کرنیں آج بھی گمراہ دلوں میں اجالا کر دیتی ہیں ۔ آپ کا عظیم کردار اور عظیم خدمات اس کے حد درجہ لائق ستائش ہیں ۔ آپ کی حیات و خدمات دراصل ان عظیم شخصیتوں کے سلسلۃ الذہب کی ایک سنہری کڑی ہے جو دعوت دین اور غلبۂ دین کے لئے اتباع سنت، جرأت مندی اور حق گوئی کا ایسا مرقع تھے جن کے سامنے باطل قوتیں حواس باختہ ہوگئیں ۔ دشمنانِ اسلام کی سطوت سرنگوں ہو کر رہی اور بدعت و خرافات اور گمراہی وباطل نظریات کا خرمن خاکستر ہوگیا۔ نتیجتاً حق و صداقت کے گلشن پر بہاریں عود کرآئیں ۔ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا حکیم الاسلام مولاناطیب صاحبؒ کے متعلق مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی نے بڑی مبنی برحقیقت بیان کی ہے۔ مفتی صاحب رقم طراز ہیں : ’’یہ بات بلا خوف تردید لکھنے کے لائق ہے کہ اگر امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ سیاسی جھمیلوں اور بکھیڑوں میں نہ پڑتے اور حضرت مولانا محمد طیب صاحبؒ اہتمام دارالعلوم کی ذمے داریوں اور الجھنوں میں نہ الجھائے گئے ہوتے تو یہ دونوں فخر روزگار اور شانِ ہندوستان شخصیتیں اپنے اپنے وقت کے امام غزالی، علامہ ابن تیمیہؒ کی ہم رتبہ ہوتیں ۔(۱)